Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹیکس نظام پر کوئی سمجھوتہ نہیں

کراچی (صلاح الدین حیدر) کئی اقدامات کرنے کے بعد حکمران اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ملک کے ٹیکس اور بینکنگ سسٹم میں فوری اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ظاہر ہے اس کے بغیر کام نہیں چلے گا لیکن کون کیا کرے گا۔کس کی کتنی اہمیت ہوگی اس سوال کا جواب ڈھونڈنا پڑے گا۔ مشکل یہ ہے کہ معیشت اس بری سطح پر پہنچ چکی ہے جہاں سخت فیصلوں کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں مگر ایسا کرنے میں حکومت ٹیکس جمع کرنے والے ادارے، فیڈرل بیورو آف ریونیو کے درمیان کہیں سرد جنگ نہ شروع ہوجائے۔ دوسری طرف پاکستانی بینکوں کی حالت کچھ عجیب ہی ہے۔ بینک کے ڈیپازٹ کی خاصی کمی دیکھی گئی ہے۔ لوگ ٹیکس اصلاحات سے بچنے کے لئے بینکوں میں پیسہ رکھنے پر مجبور تو ہیں ہچکچاہٹ کے شکار بھی نظر آتے ہیں۔ دراصل نئے نظام کے تحت قومی شناختی کارڈ ہی اب لوگوں کا ٹیکس نمبر ہوگا۔ پرانا نیشنل ٹیکس نمبر ختم کردیا گیا ۔ اب ٹیکس سے بچنے کے امکانات کافی حد تک کم ہونے کے مواقع پہلے سے کہیں زیادہ لگتے ہیں۔ عوامی سہولت کہ پیش نظر حکومت نے ٹیکس ریٹرن داخل کرانے کی تاریخ 15 اکتوبر سے 30 نومبر اور اب 15 دسمبر تک بڑھا دی ہے۔ مصیبت یہ ہے کہ پاکستان میں ٹیکس دینے کا کلچر پایا ہی نہیں جاتا۔ صرف 49 لاکھ لوگ ٹیکس دیتے ہیں جو ملکی آبادی کا ایک فیصد بھی نہیں، تو پھر اس قابو کیسے پایا جائے۔؟
تازہ ترین رپورٹ کے مطابق موجودہ مالی سال کے پہلے 5 مہینوں میں ٹیکسوں کی جمع شدہ شرح میں 102 بلین روپے کی کمی دکھائی گئی ۔ یہ رپورٹ وزیراعظم کو بھی پیش کردی گئی ۔ دوسری طرف حکومت کو ٹیکسوں کی شرح بڑھانی پڑے گی جو کہ احتجاج اور بے چینی کو جنم دے کر پی ٹی آئی حکومت کے لئے مزید مسائل کھڑے کرنے کی وجہ بن جائے گا۔ کوئی بھی سیاسی حکومت عوام کو زیر زبر کر کے فوری طور پر مقبولیت کھو بیٹھتی ہے لیکن ٹیکس کلچر کو تو فروغ دینا ہی پڑے گا۔ دنیا بھر میں مغربی ممالک میں خاص طور پر ٹیکس کے نظام پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاتا۔ ہر خاص و عام کو ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ جب ہی حکومت صحیح کام کر سکتی ہے۔ خزانہ خالی ہو تو پھر حکومت چلانا کسی مصیبت سے کم نہیں۔ ایک اور نئی مشکل جو سامنے نظر آرہی ہے وہ ہے حکومتی وزیر کا بیان کہ ایف بی آر کی بجائے ٹیکسوں کا نظام حکومت خود ترتیب دے گی۔ ایف بی آر کے افسران کو عوام کا کوئی درد نہیں ۔ انہیں اپنی تنخواہ، کار اور پیٹرول اور کلب کی ممبر شپ کی ہی پڑی ہوتی ہے۔ کوئی بھی ذمہ دار منتخب حکومت کو عوامی سہو لتوں کا خیال کرنا پڑتا ہے۔ اگر وزارت خزانہ ہی ٹیکسوں کا نظام ترتیب دے گی اور کون سا ٹیکس لگانے یا کہاں چھوٹ دینی ہے تو اس کا مثبت پہلو بھی ہے کہ حکومت کو ایف بی آر کی صورت میں سفید ہاتھی سے جان چھوٹ جائے گی ٹیکس جمع کرنے کے لئے تو مشینری درکار ہوگی۔ ادھر بینکوں کو ڈپازٹ میں اضافہ کرنے کے لئے نئی نئی اسکیمیں پیش کرنی پڑ رہی ہیں۔ ایک بینک نے تو ایک سے 5 سال تک کے سالانہ ڈپازٹ پر 9.75 فیصد سے 10,10 فیصد سالانہ منافع کی پیشکش کر دی ۔ دوسرے بینکوں کو بھی اس قسم کی سہولت دینا ہی پڑے گی۔ مطلب اگر آپ 4 سال کے لئے 25 لاکھ فکسڈ ڈپازٹ رکھتے ہیں تو 10 فیصد سالانہ منافع کے حقدار ہوں گے۔ 4 سال کے بعد آپ کی رقم 10 لاکھ سے زیادہ تجاوز کر جائے گی۔ بہرحال کئی ایک اقدامات کی ضرورت ہے جو کہ شاید کسی نہ کسی صورت میں نظر آئے۔ 
 

شیئر: