Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اچانک سب کے ضمیر کیسے جاگ گئے؟

کراچی ( صلاح الدین حیدر) سپریم کورٹ نے ایک حکم کیا صادر فرمادیا کہ ناجائز قبضے زمین پر بنائی ہوئی عمارتوں اور شادی ہالز وغیرہ گرا دیئے جائیں ۔سیاستداں جو اکثر خواب غفلت میں گرفتار رہتے ہیں اور عوامی مسائل سے جن کا دور دور تک سابقہ نہیں ہوتا وہ سارے کے سارے ایک دم جاگ گئے اور ان کا کہنا تھا کہ شادی ہال گرائے جائینگے نہ ہی کسی کی سر سے چھت چھینی جائیگی۔ سندھ کے وزیر اعلی مراد علی شاہ سمیت میئر وسیم اختر اور لولکل گورنمنٹ کے وزیر سعید غنی سب نے ہی بیان بازی کا لامتناہی سلسلہ شروع کردیا ۔ اچانک ان سب کے ضمیر کیسے جاگ گئے۔ عجیب و غریب بات ہے۔ کسی نے عدالت عظمیٰ کے احکامات کو پڑھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ اس میں صاف لکھا ہے کہ ایسی تمام عمارتیں اور شادی گھر جو ناجائز طریقے سے بنائے گئے ہوں۔ انہیں زمین بوس کر دیا جائے تاکہ شہر میں ٹریفک کے مسائل حل کرنے میں مدد ملے اور پارکس، کھیل کے میدان جو کہ نونہالوں کے لیے تفریح کا سامان مہیا کرتے ہوں انہیں واگزار کیا جاسکے۔ وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ، وزیر بلدیات سعید غنی اور میئر کراچی وسیم اختر پہلے تو آرام سے سوئے رہے پھر جب ایم کیو ایم کے سابق رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے اس معاملے کو چھیڑا تو سب ہی اٹھ کھڑے ہوئے۔ وزیر اعلی نے ایک کمیٹی بنادی تاکہ سعید غنی کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ سے اس میں ترمیم کی درخواست کی جاسکے۔ سعید غنی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ عہدے سے مستعفی ہوجا وں گا لیکن لوگوں کے سروں سے چھت نہیں چھیننے دوں گا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ آج تک کہاں تھے؟ وہ یہ بتانے سے گریزاں تھے۔ میئر کی بھی کچھ ایسی ہی حالت ہے۔ پہلے تو وہ عمارت گرانے پر تلے ہوئے تھے اب جانے کیا ہوگیا کہ حکومت کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ شادی ہال کے مالکان نے احتجاج کیا۔ شادی ہال بند کرنے کی دھمکی دی، دولھا دلہن اور اہل خانہ جنہوں نے مہینوں پہلے شادی ہالز کی بکنگ کرا رکھی تھی، پریشانی میں مبتلا نظر آئے پھر سعید غنی کے کہنے پر ہڑتال ملتوی کر دی کوئی اس بات کا جواب نہیں دیتا کہ آخر جب یہ شادی ہال فلاحی پلاٹ پر تعمیرکئے جارہے تھے اس وقت حکومت اور شہری ادارے کہاں تھے، کیوں انہیں اس وقت نہیں روکا گیا۔
 

شیئر: