Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’یقین تھا کہ پاکستانی ہندوؤں کی ہتک پر آوازضرور اٹھائیں گے‘

احمد نور 
 
کیا یہ ممکن ہے کہ سوشل میڈیا پر صرف ایک ٹویٹ سے ایسی مہم شروع ہو اور حکومت مجبور ہوجائے کہ اسے24 گھنٹوں میں اپنے ہی وزیر سے استعفیٰ لینا پڑ جائے؟
 ایک ایسی ہی مثال پاکستان کے صوبہ پنجاب میں دیکھنے کو ملی جب صوبائی وزیر اطلاعات پنجاب کو ہندوؤں کے بارے میں انتہائی ہتک آمیز جملے کسنے پر اپنے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑ گئے۔ 
پاکستان میں مقیم ایک ہندو سماجی کارکن کپل دیو نے صوبائی انفارمیشن منسٹر فیاض الحسن چوہان کے ریمارکس پر ایک ٹوئٹر پیغام میں کہاکہ انھیں پاکستان کے ساتھ حب الواطنی اور محبت کے بدلے میں پی ٹی آئی کے وزیر سے یہ ملا ہے کہ انہوں نے یہ سوچے سمجھے بغیر کہ یہاں 40 لاکھ ہندو بستے ہیں، ان کے خلاف انتہائی نازیبا الفاظ کا استعمال کیا حالانکہ ان کی اپنی جماعت میں ہندو رکن پارلیمان ہیں۔
کپل دیو کی اس ٹویٹ کے بعد ٹوئیٹر پر#SackFayazChohan کا ٹرینڈ گردش کرنے لگا اورپاکستانی ہندوؤں کی حمایت میں پیغامات کاایک نہ رکنے والاسلسلہ شروع ہو گیا۔
#SackFayazChohan #FayazChohan
صوبائی وزیرنے بعد میں اپنے بیان کی وضاحت کی کہ انہوں یہ ریمارکس انڈین ہندوؤں کے بارے میں دیے تھے، لیکن اس وقت تک پانی ان کے سر سے گزر چکا تھا۔
کپل دیو نے اردو نیوز کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ انہوں نے اپنی ٹویٹ میں وزیر کے استعفے کا مطالبہ نہیں کیا تھا  لیکن انہیں پاکستان کے لوگوں پر یقین تھا کہ وہ ہندووں کی ہتک پر آوازضرور اٹھائیں گے، اورپاکستانیوں کی اکثریت نے ان کا ساتھ دیا۔
#SackFayazChohan
ان کا کہنا تھا کہ وہ حکومت کے اس فیصلے سے خوش ہیں کیونکہ اس سے پاکستان میں بسنے والی تمام اقلیتوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے کہ وہ اپنے حقوق کا دفاع کر سکتے ہیں۔
غیرسرکاری تنظیم میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی کے سربراہ اسد بیگ کا کہنا تھا کہ جب کوئی ایشو سامنے آتا ہے تو سوشل میڈیا پر ایک ’ایکو چیمبر‘ بنتا ہے یعنی ہم خیال لوگ یک زبان ہو کر بولتے ہیں جس سے ان کے بیانیے میں طاقت آ تی ہے۔
ان کے مطابق سوشل میڈیا پر وزیر کے بیان کے بعد ہم خیال لوگوں نے آواز اٹھائی جس کی وجہ سے حکومت انہیں عہدے سے ہٹانے پر مجبور ہو گئی۔انہوں نے کہا کہ ’سوشل میڈیا پر اقلیتوں کے حقوق پر آواز اٹھانے کے علاوہ ہمیںعام زندگی میں بھی دوسرے مذاہب کے لوگوں کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔‘
اسد بیگ کا یہ بھی کہنا تھا کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے جہاں بہتری آ رہی ہے وہیں اس کے چیلنجز بھی ہیں جیسا کہ’ جعلی خبر‘ ایک بڑا چیلنج ہے  جس سے افواہیں پھیلتی ہیں اور بعض اوقات اس کے خطرناک نتائج سامنے آتے ہیں۔
 ان کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک کی طرح ’ہمیں بھی ضرورت ہے کہ ’میڈیا انفارمیشن اینڈ لڑیسی‘ پر کام کیا جائے اور لوگوں کو سمجھایا جائے کہ سماجی رابطے کے پلیٹ فارمزکو کس طرح زیادہ موثر طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے تاکہ جمہوریت اور معیشت کو فروغ ملے۔‘
آدھے سے زیادہ پاکستان کو پتہ تھا کہ فیاض چوہان بدتمیز ہے، جاہل ہے بالکل اس قابل نہیں کہ ملک کا بڑا صوبہ تو ایک طرف محلے کا بھی ترجمان ہو سکے، خان صاحب کو دس ماہ بعد احساس ہوا
ڈیجیٹل رائیٹس کے لیے کام کرنے والی تنظیم بائٹس فار آل کے ڈائریکٹر شہزاد احمد کا کہنا تھا صوبائی وزیر کی گفتگو غیر مناسب تھی جس کی وجہ سے ہندو طبقے کی دل آزاری ہوئی، لیکن حکومت نے وزیرسے استعفی لے کر دوسرے مذاہب کے خلاف نفرت پھیلانے والوں کو ایک پیغام دیا ہے کہ ایسے لوگوں کی معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ جہاں سوشل میڈیا کی وجہ سے لوگوں کو اپنی آواز اٹھانے کا موقع ملا ہے وہیں مفروضوں، جھوٹ اور اخلاقی اقدار سے منافی مواد بھی دیکھنے میں آ رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ روایتی میڈیا پر لوگوں میں آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ خبر کی تشہیر سے پہلے اس کی تصدیق کر لیا کریں۔
فیاض چوہان کے ہندو برادری پر ریمارکس پر استعفی لیکر عمران خان نے ثابت کیا ہے کہ وہ پاکستان کوجناح کا پاکستان بناناچاہتے ہیں، جہاں تمام اقلیتوں کیساتھ مساوی سلوک کیا جائے گا۔ایسے تمام افراد کےخلاف کاروائی ضروری ہے جو نفرت کو جنم دیتے ہیں اور تفریق پیدا کرتے ہیں۔

شیئر: