Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان: بسوں سے اتار کر 14 مسافروں کو قتل کر دیا گیا

تحقیق میں یہ دکھایا گیا ہے کہ مردہ سؤروں کے دماغی خلیے ان کے مرنے کے گھنٹوں بعد بھی بحال کیے جا سکتے ہیں۔
زین الدین احمد 
پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں حکام کے مطابق ضلع گواردر میں مکران کوسٹل ہائی پر مسلح افراد نے 14 مسافروں کو قتل کر دیا ہے جن میں سکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں۔
بلوچستان کے وزیر اطلاعات ظہور احمد بلیدی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ واقعہ بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب ساحلی ضلع گوادر کی تحصیل اورماڑہ سے تقریباً چالیس کلومیٹر دور بوزی ٹاپ کے مقام پر پیش آیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’حملہ آوروں نے مکران کو کراچی سے ملانے والی کوسٹل ہائی وے پر چلنے والی تین سے چار مسافر بسوں کو روک کر تلاشی لی اور شناختی دستاویزات دیکھنے کے بعد 16مسافروں کو بسوں سے اتار ا۔ کچھ فاصلے پر لے جانے کے بعد حملہ آوروں نے ان میں سے 14 مسافروں کو قتل کردیا۔2مسافر بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے۔‘
صوبائی وزیر اطلاعات نے مزید بتایا کہ واقعہ کے بعد لیویزاور دیگر سکیورٹی اداروں کے اہلکارموقع پر پہنچ گئے۔ ہلاک ہونے والوں کی لاشیں اورماڑہ میں پاکستان نیوی کے درمانجاہ ہسپتال پہنچادی گئی ہیں جہاں شناخت کا عمل جاری ہے۔ مرنے والوں میں سے بیشتر افراد غیر مقامی ہیں۔
اورماڑہ لیویز تھانہ کے انچارج سخی بخش نے اردو نیوز کو بتایا کہ مرنے والوں میں سے اکثریت سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی ہے جو کراچی، گوادر اور تربت کے درمیان سفر کررہے تھے۔
اورماڑہ کے مقامی صحافی سرور نوش کے مطابق مکران کوسٹل ہائی وے پر گوادراور ضلع کیچ (تربت) کے مختلف علاقوں اور ملک کے معاشی مرکز کراچی کے درمیان روزانہ درجنوں مسافر بسیں چلتی ہیں۔ پنجاب اور ملک کے دیگر علاقوں کو جانے والوں کو بھی پہلے کراچی جانا پڑتا ہے۔
لیویز تھانہ انچارج کے مطابق حملے میں بچ جانے والے ایک سیکورٹی اہلکار نے بتایا ہے کہ حملہ آوروں نے بھیس بدلنے کے لیے سکیورٹی فورسز کی وردیاں پہنے ہوئے تھے اور ان کی تعداد چالیس سے زائد تھی۔ انہوں نے بتایا کہ مکران کوسٹل ہائی وے کے جس مقام پر واقعہ پیش آیا ہے وہ پہاڑی علاقہ ہے اورحملہ آورواردات کرنے کے بعد پیدل پہاڑوں کی طرف فرار ہوگئے۔
وزیراطلاعات بلوچستان ظہور بلیدی کا کہنا ہے کہ حملے میں کالعدم تنظیمیں ملوث ہوسکتی ہیں۔ اس واقعہ کی تحقیقات شروع کردی گئی ہیں۔ وزیرداخلہ بلوچستان ضیاءلانگو کا کہنا ہے کہ ملزمان کی گرفتاری کیلئے ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں۔

اس واقعے کی ذمہ داری بلوچستان لبریشن فرنٹ، بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچ ریپبلیکن گارڈز پر مشتمل کالعدم عسکری تنظیموں کے اتحاد بلوچ راجی آجوہی سنگر ’براس‘ نے قبول کی ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے متعلقہ سکیورٹی اداروں سے رپورٹ طلب کرلی ہے۔ وزیراعظم کا کہناتھا کہ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔
وزیر اطلاعات فواد چودھری نے اس واقعے پر ٹوئٹر پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے دہشت گردی کی جنگ میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں لیکن جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہزارہ پر حملہ، پھرحیات آباد میں ٹی ٹی پی اور پھر آج کوسٹل ہائی وے کا بہیمانہ واقعہ۔۔ ایک منظم پیٹرن نظرآرہا ہے، ہم نے امن کے لیے بہت قربانی دی ہے، ان شااللہ ہم ان واقعات کے ذمہ داران کو نشان عبرت بنا دیں گے۔‘ 
بلوچستان کے وزیر اعلیٰ جام کمال نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’امن کے دشمن اپنے بیرونی آقاوں کے اشارے پر اپنے ہی لوگوں کا خون بہا رہے ہیں۔ دہشت گردی ترقی کا عمل روکنا چاہتے ہیں مگر ترقی اور امن کا سفر ہر صورت جاری رہے گا۔‘
خیال رہے کہ بسوں سے اتار کر مسافروں کو اس طرح سے قتل کرنے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں اس سے قبل بھی بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ایسے واقعے رونما ہوچکے ہیں۔اسی طرح کا ایک واقعہ 2015 ءمیں بلوچستان کے علاقے مستونگ میں پیش آیا تھا، جہاں مسلح افراد نے کراچی جانےوالی مسافر بسوں سے دو درجن کے قریب مسافروں کو اغوا کرنے کے بعد قتل کردیا تھا۔

 

شیئر: