Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

" مثبت سمت میں اہم قدم مگر زیادہ امیدیں نہیں

 
 پاکستان کے سابقہ حکمرانوں کی غلطیوں کے باعث دونوں ممالک کے مابین غلط فہمیوں میں اضافہ ہوا جن کو دور کرنے کا یہ بہترین موقع ہے
 
خرم شہزاد
 
وزیراعظم عمران خان ایران کا پہلا سرکاری دورہ ایک ایسے وقت شروع کر رہے ہیں جب چند دن پہلے اورماڑہ میں پیش آنے والے واقعے کے تانے بانے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایران سے ملائے ہیں۔
پاکستان اورایران کے برادرانہ تعلقات قیام پاکستان سے بھی بہت پہلے کے ہیں اور دونوں قومیں مشترکہ علاقائی، مذہبی اور ثقافتی  ورثہ رکھتی ہیںتاہم انقلاب ایران کے بعد خطے میں رونما ہونیوالی تبدیلیوں، سعودی عرب، ایران چپقلش اوربعد ازاں افغانستان جنگ، اور پاکستان میں فرقہ وارنہ فسادات کے تناظر میں دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں اتار چڑھاو آتارہاہے۔
حالیہ برسوں میں ایران کے پاکستان کے ساتھ ملحقہ سرحدی علاقوں میں دہشت گردی، پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں بھارتی مداخلت اور اس کے سعودی عرب سے قریبی معاشی اور فوجی تعلقات ایسے موضوعات رہے ہیں جن کی وجہ سے دونوں ہمسایہ ممالک میںتناؤ کی صورت حال رہی ہے۔
عمران خان کے حالیہ دورے میں ان کے ساتھ ایک بڑا سرکاری وفد بھی شریک ہے جس میں خزانہ، تجارت، توانائی، انسانی حقوق اور وسائل، سمندری اموراور بین الصوبائی رابطے کے شعبوں کے وزراءاوراعلی افسران شامل ہیں جو اس بات کا عندیہ ہے کہ پاکستانی حکام ایران کے ساتھ مختلف شعبوں میں تعاون کو آگےبڑھانےکےخواہشمندہیں۔
تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کے سعودی عرب سے انتہائی قریبی تعلقات اور ایران کے ساتھ سرحد کے علاقوں میں جاری کشیدگی کی وجہ سے دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں کسی  بہت بڑی تبدیلی کی پیشن گوئی قبل از وقت ہو گی۔
تجزیہ نگار اور سینیئر صحافی زاہد حسین کے مطابق پاکستان کی کوشش ہو گی کی تجارتی معاملات اور سرحدوں پر امن و امان کے مسائل حل کیے جائیں، جس سے کشیدگی کم ہوگی اور باہمی روابط بھی بہترہوں گے لیکن بظاہر کسی بہت بڑی تبدیلی کے آثارنظرنہیںآرہے۔
’اس دورے سے کشیدگی تو کم ہو سکتی ہے لیکن کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جس پر بریک تھرو نظر آئے۔ ‘‘
زاہد حسین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی کوششوں اور ایران کی خواہش کے باوجود دونوں ممالک کے مابین تجارتی تعلقات میں مطلوبہ وسعت کے امکانات کم ہونگے کیونکہ ایران پر تازہ امریکی پابندیاں اس کی راہ میں حائل ہو سکتی ہیں۔
حکمرانوں کے ذاتی مفاد نے غلط فہمیاں پیداکیں ‘
ایران میں پاکستان کے سابق سفیر اورخارجہ امور کے ماہر شمشاد احمد کے مطابق پاکستان کے سابقہ حکمرانوں کی غلطیوں کے باعث دونوں ممالک کے مابین غلط فہمیوں میں اضافہ ہوا جن کو دور کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔
’’سابقہ حکمرانوں کی غلطیوں اور ذاتی مفاد کی وجہ سے مسئلے پیدا ہوئے لیکن اس اعلی سطحی دورے کا مقصد غلط فہمیوں کو ختم کرنا ہے اور اس سے یقینا مدد ملے گی۔‘‘
شمشاد احمد کا خیال ہے کہ ایران سمجھتا ہے کہ اس کو دہشت گردی کا شکاربنایا جا رہا ہے لیکن پاکستان سے بہتر کسی کو اندازہ نہیں ہے کہ خطے میں دہشت گردی کروانے کی زمہ دار کون سی طاقتیں ہیں اور پاکستانی وزیراعظم ایسے مسائل پر بات کرکے ایران کی غلط فہمیاں دور کر سکتے ہیں۔
ایران اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں توازن کے بارے میں شمشاد احمد کا ماننا ہے کہ پاکستان ان کے جھگڑوں سے دور رہ کر اور ’امن کے پیامبر‘ کا کردار ادا کر کے نہ صرف یہ کہ اپنے تعلقات میں توازن قائم رکھ سکتا ہے بلکہ ان دونوں ممالک کو بھی قریب لا سکتا ہے۔
’’ریاستوں کے تعلقات میں سوتنوں والا سین نہیں ہوتا۔ جذبات پرنہیں، مفادات پر تعلقات ہوتے ہیں، ہم آپسمیں مل کر خوشحالی لا سکتے ہیں۔‘‘
امید کی کرن
قائداعظم یونیورسٹی کے سابقہ سینئر پروفیسراور تجزیہ کار ڈاکٹر رفعت حسین کو اس دورے سے کوئی ذیادہ امیدیں نہیں ہیں لیکن وہ اس کو مثبت سمت میں ایک اہم قدم قرار دیتے ہیں۔
’’ایران کی پاکستان سے بہت شدید شکایات ہیں، اسی طرح پاکستان کو بھی ایران سے کافی گلے ہیں، اس لیے اس دورے سے کوئی بہت بڑے نتائج کی امید نہیں رکھنی چاہیئے۔ لیکن مثبت بات یہ ہے کہ ایران سمجھتا ہے کہ عمران خان امریکہ کے زیر اثر نہیں ہے اور وہ ان سے بات کرنے میں ذیادہ سنجیدہ ہے، لہٰذا یہ گلے شکوے دور کرنے کا بہترین موقع ہے۔‘‘
’’اگر دونوں ملک باہمی تجارت کو بڑھانے میں بھی کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ موجودہ حالات میں امید کی ایک کرن ہو گی۔‘‘
دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی حالیہ تاریخ زیادہ خوشگوار نہیں رہی ہے اور اب  دیکھنا یہ ہے کہ اورماڑہ میں ہونے والے حملے اور کچھ عرصہ پہلے ایرانی سکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت اور اغوا جیسے سنجیدہ معاملات کے سائے وزیراعظم عمران خان کے دورے پر رہیں گے۔
 
 
 
 
 

شیئر: