پاکستان کے فیشن سیکٹر سے متعلق لکس سٹائل ایوارڈ کی نامزدگیوں کا اعلان ہونے کے بعد مختلف افراد نے تقریب کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تو جنسی ہراس کی بحث نئی شدت سے سامنے آئی۔ ایسے میں کچھ افراد کا خیال ہے کہ یہ شہرت حاصل کرنے کی کوشش ہے۔
لکس سٹائل ایوارڈز سنہ 2019 کے لیے نامزد کیے جانے والے متعدد مرد و خواتین نے اپنی دستبرداری کا اعلان کر رکھا ہے۔ ایمان سلمان نامی ماڈل کی جانب سے سب سے پہلے ایوارڈ کا حصہ بننے سے معذرت کی گئی تھی۔ جس کے بعد معاملہ پر ناراضی ظاہر کرنے والوں کا کہنا ہے کہ جیوری نے ایک ایسے فرد کو نامزد کیا ہے جس پر ایک خاتون کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام ہے۔
ایمان سلمان کا اعلان 31 مارچ کو اس وقت سامنے آیا تھا جب لکس سٹائل ایوارڈ کی نامزدگیوں کا اعلان کیے ہوئے 24 گھنٹے بھی پورے نہیں پوئے تھے۔ یہ اعلان 30 مارچ کو کیا گیا تھا۔
اگلے چند دنوں میں صائمہ بارگفریڈ اور فاطمہ ناصر نامی میک اپ آرٹسٹس، گلوکارہ میشا شفیع، فلم پروڈیوسر جامی مور، ماڈل رباب علی، میوزک بینڈ اسکیچز اور ڈیزائنر برانڈ جنریشن نے بھی ایوارڈ سے دستبرداری کا اعلان کر دیا۔
ایوارڈز کی نامزدگیوں کی جانب سے دستبرداریوں کے وقفے وقفے سے سامنے آنے والے اعلانات کے درمیان جمعرات کو فیشن ڈیزائنر اور لکس سٹائل ایوارڈز کے ساتھ کام کرنے والی فریحہ الطاف اپنے موقف کے ساتھ سامنے آئیں۔
— Frieha Altaf (@FriehaAltaf) April 25, 2019
فیشن انڈسٹری سے متعلق کچھ افراد کا خیال ہے کہ دستبرداریوں کے بعد لکس سٹائل ایوارڈز اپنی ساکھ کھو چکے ہیں۔ طویل عرصہ سے ڈیزائننگ کے شعبہ سے وابستہ ماہین خان نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ جنسی ہراسانی کا شکار ہونے اور ’میں بھی‘ یا ’می ٹو‘ تحریک کی حامی ہونے کے ناطے میں اس تقریب کی حمایت نہیں کر سکتی۔
I have said from the outset that the LA, in fact all awards have lost their integrity in more ways than one.More so as a victim of sexual abuse and supporter of the metoo movement I cannot in all conscience support the event .@jamiazaad @sketches https://t.co/9xF6uQn2Yr
— Maheen Khan (@Maheenkhanpk) April 24, 2019
رواں برس جولائی میں منعقد ہونے والی ایوارڈ تقریب سے دستبرداریوں کے اعلانات شروع ہونے کے تقریبا تین ہفتوں بعد انتظامیہ نے 24 اپریل کو پہلی بار اپنا موقف بھی دیا ہے۔
متاثرہ خواتین سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے انتظامیہ نے نہ صرف نامزدگیوں کا دفاع کیا بلکہ یہ وضاحت بھی دی کہ انتظامیہ اور سپانسر کا نامزدگیوں سے کوئی تعلق نہیں، مختلف افراد اور اداروں کو ایک غیر جانبدار، شفاف اور آزاد جیوری نامزد کرتی ہے۔
انتظامیہ کے مطابق جنسی ہراساں کرنے کے ایک واقعہ سے متعلق گفتگو سنہ 2019 کے لکس سٹائل ایوارڈز کی نامزدگیوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ جیوری، برانڈ اور ادارہ عدم برداشت، ہراسانی اور عدم مساوات کی مذمت کرتا ہے۔
بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ جیوری نے محض کارکردگی کو مدنظر رکھ کر نامزدگیاں کی ہیں، کسی فرد کے ذاتی کردار، اس کے کاموں یا متعلق افراد کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ پیغام میں معاملہ کی حساسیت نمایاں کرنے کے بعد پاکستان کے عدالتی نظام پر یہ کہتے ہوئے اظہار اعتماد کیا گیا ہے کہ اسی نظام انصاف نے مقدمہ کا فیصلہ کرنا ہے۔
ایوارڈز کے لیے نامزدگیوں اور دستبرداری کے اعلانات پر تبصرہ کرنے والے کچھ صارفین کا خیال ہے کہ می ٹو جیسی مہم کا حقیقت سے تعلق نہیں بلکہ یہ محض شہرت حاصل کرنے کی کوشش ہے۔
I have said from the outset that the LA, in fact all awards have lost their integrity in more ways than one.More so as a victim of sexual abuse and supporter of the metoo movement I cannot in all conscience support the event .@jamiazaad @sketches https://t.co/9xF6uQn2Yr
— Maheen Khan (@Maheenkhanpk) April 24, 2019
لکس سٹائل ایوارڈز سنہ 2019 کے لیے 24 مختلف کیٹیگریز میں ایوارڈز دیے جائیں گے۔ جیوری کی جانب سے نامزد کردہ افراد اور برانڈز کی نو مختلف کیٹگریز میں فاتح کا فیصلہ کرنے کے لیے آن لائن ووٹنگ کو استعمال کیا جائے گا۔
مارچ کے اختتام پر لکس سٹائل ایوارڈز کی نامزدگیوں سے قبل پاکستانی گلوکارہ میشا شفیع کی جانب سے ساتھی گلوکار اور اداکار علی ظفر پر جنسی ہراس کا الزام لگایا گیا تو دونوں جانب سے
ایک دوسرے پر مقدمات درج کرائے گئے۔ لاہور کی سیشن عدالت میں زیرسماعت مقدمہ کے دوران عدم پیشی پر میشا شفیع پر جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔
Me too Shetoo and r publicity stunt u now. U was also model now Mashallah successful business lady
— Fatima.Red Stone News (@RedStoneProduc4) April 25, 2019