Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان کی ایوان میں آمد: ’وہ آئے،بیٹھےاورچلےگئے‘

وزیراعظم عمران خان تقریباً 70 دن بعد بدھ کوقومی اسمبلی آئےتوپارلیمنٹ ہاؤس میں موجود ہر شخص متجسس تھا کہ وہ کیا کہیں گے۔اس سےقبل وہ 28 فروری کواسمبلی آئے تھے جب انہوں نے پاک فضائیہ کی جانب سے گرائے جانے والے انڈین جہاز کے پائلٹ ابھینندن کی حوالگی کا اعلان کیا تھا۔

 اُس وقت سے اب تک پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے۔ ان کی معاشی ٹیم کے روح رواں اسد عمراب سابق وزیرخزانہ ہوچکےہیں۔کابینہ میں کئی نئے چہرے آ چکے ہیں۔سیاسی محاذ پرگرمی آرہی ہے۔ پہلے صرف  پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹوحکومت کے خلاف بولتے تھے،اب تومسلم لیگ نواز بھی "شیر" ہو گئی ہےاوران کی پارلیمانی قیادت کی تبدیلی سے پارٹی کا بدلا ہوا رُوپ سامنے آیا ہے۔
ان سب تبدیلیوں کے تناظر میں وزیراعظم عمران خان کی قومی اسمبلی آمد خاصی اہمیت اختیار کر گئی تھی۔ توقع کی جا رہی تھی کہ وہ قومی امور پر پارلیمان کو اعتماد میں لیں گے۔ پھر لاہور میں داتا دربارکےباہر خودکش حملے کے بعدپارلیمان میں ان کی موجودگی سےامید کی جا رہی تھی کہ وہ امن وامان کی صورتحال کے حوالے سے حکومتی حکمت عملی سے بھی عوامی نمائندوں کو آگاہ کریں گے۔ اس دوران ایوان میں داخل ہوتےوقت ایک صحافی نے وزیراعظم سے اپوزیشن کے متوقع احتجاج کے بارے استفسار کیا توان کا کہنا تھا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہےاپوزیشن شروع سے ہی ایسا کررہی ہے۔
دوسری طرف اپوزیشن نے بھی وزیراعظم کی آمد پر بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف احتجاج کے لیے بظاہر کافی اہتمام کر رکھا تھا۔ شاید وزیراعظم کی آمد ہی کی وجہ سے پارلیمنٹ کا اجلاس شروع ہوا تواپوزیشن اورحکومتی نشستوں پرحاضری معمول سے کہیں زیادہ تھی۔ صحافیوں کی گیلری میں بھی خاصا رش تھا۔
اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران عمران خان موجود رہے۔ وزیراعظم کے پاس ہی وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اورحال ہی میں وزارت سے مستعفی ہونے والےاسد عمر بھی بیٹھے تھے۔ اس دوران وہ مسلسل تسبیح پرکچھ پڑھتے رہے، تاہم ان کی نشست جلد ہی ’منی وزیراعظم ہاؤس‘ بن گئی،جہاں پرحکومتی پارٹی کے ارکان آ کراپنےمسائل بتاتے رہے۔ یاد رہے کہ گذشتہ دورحکومت میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے بارے میں پی ٹی آئی کوبھی یہی شکایت ہوتی تھی کہ اول تووزیراعظم ایوان میں نہیں آتےاورجب آتے بھی ہیں توایوان کی کارروائی میں دلچسپی کے بجائےان سے ملاقات کو ترسےارکان ان کے ڈیسک پرہی اپنے کام لےکرآجاتےہیں۔

سوائے بلاول بھٹو کے، اپوزیشن کی قیادت بھی ایوان میں موجود رہی اور توقعات کے برعکس وقفہ سوالات پرامن رہا۔تاہم جونہی اپوزیشن کے چند ارکان احتجاجی کتبے لیے ایوان میں داخل ہوئےتووزیراعظم  بغیر کچھ بولے ایوان سے روانہ ہو گئے۔ ان کی روانگی پر اپوزیشن نے دبے الفاظ میں ’شیم شیم‘ کے نعرے لگائے۔ گیلری میں موجود صحافیوں کا خیال تھا کہ شاید حکومتی اور اپوزیشن بنچوں میں کوئی" ڈیل" ہو گئی ہے اور  بظاہر اس کے شواہد نظر بھی آ رہے تھے کہ اپوزیشن احتجاجی کتبے تو لائی مگر ان کا مظاہرہ نہ کیا۔

اس سے ایک دن قبل سپیکر قومی اسمبلی نے بظاہر لاہورمیں سابق وزیراعظم نواز شریف کی جیل واپسی کے جلوس میں شرکت کے خواہش مند اپوزیشن ارکان کی سہولت کے لیے اجلاس میں ایک دن کا وقفہ بھی کیا تھا۔ صحافیوں کے خیال میں دونوں اطراف نے ایک دوسرے کو سہولت دی۔ تاہم وزیراعظم کی خطاب  کے بغیر روانگی  سے صحافی  اور اراکین اسمبلی خاصے مایوس دکھائی دیے۔ اس دوران وزیراعظم کی مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان بھی پریس گیلری میں آئیں اورصحافیوں کے ساتھ بیٹھ کرکچھ دیر ایوان کی کارروائی دیکھتی رہیں۔اجلاس میں کوئی بڑی خبر تو نہ بن سکی مگر حکومت اوراپوزیشن کی مفاہمت سے یہ تاثر ضرور پیدا ہوا کہ دونوں اطراف میں پارلیمانی نظام کو چلتے رہنے دینے کی خواہش موجود ہے۔

شیئر: