Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’آپ کی گاڑی میں کوئی فارنر تو نہیں؟'

سوات میں سکیورٹی کی وجہ سے چیک پوسٹوں پر چیکنگ کی جاتی ہے
یہ مئی کی ایک حسین دوپہر ہے، فلک بوس پہاڑوں پر درخت سرمستی کے عالم میں جھوم رہے ہیں۔ ندی نالوں اور لہلاتی فصلوں کے اوپر سے چلتی آسودہ ہوائیں دل و دماغ کو معطر کر رہی ہیں۔ یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے جنت میں آن پہنچے ہوں۔ 
جنت نظیر وادیوں اور لہلہاتی فصلوں سے بھرے کھیتوں کے بیچوں بیچ بہتے دریائے سوات کی مست لہروں سے برپا ہونے والا شور جب یخ بستہ ہوا کے تھپیڑوں کے ساتھ فضا میں بلند ہوتا ہے تو انسان کتنی دور سے ہی کیوں نہ آیا ہو، رستے کی ساری تھکن اور تکلیفیں بھلا کر یہاں ہمیشہ قیام پذیر ہونے کی آس کرنے لگتا ہے۔ 
قدرتی نظاروں کی یہ خوبصورتی اور کشش آپ کو یہ بھی بھولنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ اسلام آباد سے سوات تک سکیورٹی اداروں نے آپ کو کتنی چیک پوسٹوں پر روکا اور کتنی بار یہ سوال کیا کہ 'گاڑی میں کوئی فارنر تو نہیں؟'

دریائے سوات کی مست لہریں سیاحوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتی ہیں
دریائے سوات کی مست لہریں سیاحوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتی ہیں

مینگورہ سے مالم جبہ پہنچنے کے لیے دریائے سوات کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے گاڑی آہستہ آہستہ آبادی سے دور، بہت دور پہاڑوں میں داخل ہونے لگتی ہے، جن کی سفید چوٹیاں سرسبز گھنے جنگلات کے منظر کے ساتھ آپ کی آنکھوں کو تروتازہ کر دیتی ہیں اور آب و ہوا آپ کے جسم میں فرحت کا احساس بھر دیتی ہے۔ 
مالم جبہ، سوات، نتھیا گلی، ہنزہ، شمالی علاقہ جات اور ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے دیگر بے پناہ خوبصورت مقامات پر سرشار کر دینے والی ایسی ہی کیفیات سے متاثر ہو کر وزیراعظم عمران خان نے پاکستان کو سیاحوں کی جنت بنانے کا خواب دیکھا تھا۔
ایک ایسی جنت جہاں دنیا بھر سے سیاح آ کر سیر و تفریح کا لطف اٹھائیں گے اور بدلے میں پاکستان کو سالانہ اربوں روپے کے محصولات دے کر اسے معاشی مسائل سے نجات دلائیں گے۔

فلک بوس پہاڑوں پر درخت سرمستی کے عالم میں جھوم رہے ہیں
فلک بوس پہاڑوں پر درخت سرمستی کے عالم میں جھوم رہے ہیں

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سیاحت کو معیشت کا بنیادی عنصر بنانے کا اعلان کیا اور اس کو ایک منافع بخش صنعت بنانے کے لیے 50 ممالک کے شہریوں کو پاکستانی ایئرپورٹس پر ویزہ دینے اور 175 ممالک کے لیے آن لائن ویزے کی سہولت کا اعلان کیا۔
سیاحت کے فروغ  اور انفراسٹرکچر میں بہتری کے لیے رواں سال کے آغاز میں ایک ٹاسک فورس بھی تشکیل دی گئی جس کی سفارشات کی روشنی میں سرکاری اور نجی شعبے کے 26 ماہرین پر مشتمل ایک نیشنل ٹورازم کوارڈینیشن بورڈ بنایا گیا۔
اس ٹورازم بورڈ کی مدد کے لیے وزیراعظم نے نو ورکنگ کمیٹیاں بھی بنائی ہیں جوعملی اقدامات کی منصوبہ بندی کر کے بورڈ کو پیش کریں گی۔

مینگورہ کی پہاڑوں کے بیچ مقامی لوگ کرکٹ سے لطف اندوز ہو رہے ہیں
مینگورہ کے پہاڑوں کے بیچ مقامی لوگ کرکٹ سے لطف اندوز ہو رہے ہیں

لیکن حکومت کو آئے دس ماہ گزرنے کے باوجود ان تمام تر اقدامات کا کوئی فائدہ نظر نہیں آرہا۔  
خود ٹورازم بورڈ کے اراکین تسلیم کرتے ہیں کہ حکومت کے کام کرنے کی رفتار سست ہے اور اس کے ان اعلانات پر بھی عملدرآمد شروع نہیں ہوا جو فوری طورپر ممکن ہیں اور آج بھی غیرملکیوں کو پاکستانی ویزے کے حصول میں شدید مشکلات ہیں۔
بورڈ کے رکن اور پاکستان میں سیاحت کے فروغ کے لیے کام کرنیے والے ادارے ’سسٹین ایبل ٹورازم فائونڈیشن‘ کے صدرآفتاب رانا کہتے ہیں۔
’اگر آپ سیاحوں سے آن لائن درخواست میں بہت ساری دستاویزات مانگیں گے اور آپ کا آن لائن سسٹم اور ہیلپ لائن بھی ٹھیک سے کام نہیں کرے گی تو لوگ کیوں ویزہ اپلائی کریں گے؟‘

مئی کا مہینہ ہے مگر پہاڑ اب بھی برف سے لدے ہوئے ہیں
مئی کا مہینہ ہے مگر پہاڑ اب بھی برف سے لدے ہوئے ہیں

اُن کے خیال میں ویزہ پالیسی اب بھی غیرحقیقی ہے۔
’حکومت کو ویزہ پالیسی مزید بہتر کرنے کےعلاوہ ایسے ممالک پر توجہ دینی چاہیے جن کے شہری واقعی پاکستان آنا چاہتے ہیں۔‘
پاکستان ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کے مینجر پبلیسٹی اینڈ پروموشن مختارعلی کے مطابق سیاحت کے لیے پاکستان آنے والے غیرملکی شہریوں کی تعداد اگرچہ بہت کم ہے تاہم وزیراعظم عمران خان کا قائم کردہ نیشنل ٹورازم کوارڈی نیشن بورڈ اس تعداد کو بڑھانے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔
’بورڈ کے اب تک چار اجلاس ہو چُکے ہیں جن میں سے دو میں عمران خان نے خود شرکت کی۔ ماہرین پر مشتمل یہ بورڈ جلد پالیسی سازی کے لیے اہم اقدامات کرے گا۔‘

برف پوش پہاڑ وادی کو خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتے ہیں
برف پوش پہاڑ وادی کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتے ہیں

آفتاب رانا کے مطابق گذشتہ برسوں میں پاکستان آنے والے سیاحوں میں معمولی اضافہ ہوا ہے۔
ان کے اعدادوشمار کے مطابق گذشتہ چھ سالوں کے دوران یعنی 2013 سے 2018 تک لگ بھگ 60 ہزارغیرملکی شہریوں نے سیاحتی ویزوں پر پاکستان کا سفرکیا۔
ان کے خیال میں سیاحوں کے پاکستان نہ آنے کی سب سے بڑی وجہ سخت ویزہ پالیسی اور امن و امان کی مخدوش صورت حال تھی لیکن ویزہ نہ ملنے کے علاوہ کچھ اور بھی وجوہات ہیں جو نہ صرف غیر ملکی بلکہ مقامی شہریوں کو بھی پاکستان کے سیاحتی مقامات سے دور رکھے ہوئے ہیں۔

سڑکوں کی بدحالی کے باعث مینگورہ سے مالم جبہ تک کا سفر بہت دشوار ہے
سڑکوں کی بدحالی کے باعث مینگورہ سے مالم جبہ تک کا سفر بہت دشوار ہے

آل سوات ہوٹل ایسوسی ایشن کے صدر زاہد خان بتاتے ہیں کہ 1994 میں صوفی محمد کی تحریک نفاذ شریعت کے آغاز سے قبل سوات میں سالانہ تین لاکھ مقامی اور لگ بھگ 40 سے 60 ہزار بین الاقوامی سیاح آتے تھے لیکن پھر لوگوں کو نکاح نامے ساتھ رکھنے، ان کے نشے میں ہونے کا پتہ چلانے کے لیے منہ سونگھنے اور برقعے پہننے پر مجبور کیا گیا جس سے سیاحت کی صنعت تباہ ہوگئی اور ہوٹلوں کو بہت نقصان پہنچا۔
 ’دہشت گردی کے باعث صرف سوات کی ہوٹل انڈسٹری کو 2007 سے 2009 تک ساڑھے سات ارب روپے کا نقصان ہوا۔‘
ملک کے اکثر سیاحتی مقامات پر بنیادی سہولیات نہ ہونے کے برابر اور قیام و طعام انتہائی مہنگے ہیں۔ اس پہ مستزاد یہ کہ غیر ملکیوں کو سفر کے دوران بے بہا رکاوٹوں اور سوال و جواب کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔

جب وہ یہ تمام مشکلات برداشت کر کے اپنی پسندیدہ منزل پر پہنچتے ہیں تو وہاں انھیں وہ تفریحی مشاغل دستیاب نہیں ہوتے جو دنیا بھر کے سیاحتی مقامات پر سیاحوں کی دلکشی کا باعث ہوتے ہیں۔
سوات کے مرکزی مقام مینگورہ سے مالم جبہ تک کا محض 40 کلو میٹر کا سفر لگ بھگ تین گھنٹوں میں طے ہوتا ہے، کیونکہ شہر سے پہاڑی مقام تک جانے والی سڑک یا تو جگہ جگہ سے غائب ہے یا ٹوٹی پھوٹی ہے اور یا پھر تعمیر نو کی غرض سے بند ہے، یہ تعمیر آئندہ سال میں بھی مکمل ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔

انفراسٹریکچر کی تباہی کے باعث سیاح یہاں آنے کو تریجیح نہیں دیتے
انفراسٹریکچر کی تباہی کے باعث سیاح یہاں آنے کو ترجیح نہیں دیتے

 یہ دشوار گزارسفر طے کرکے مالم جبہ ریزورٹ کے نظارے کے لئے ملتان سے آنے والے محمد ارسلان اوران کے دو دوست راستے کی تکلیفوں سے سخت نالاں تھے۔ 

مالم جبہ میں ایک نجی کمپنی کے تعاون سے چئیرلفٹ لگائی گئی ہے
مالم جبہ میں ایک نجی کمپنی کے تعاون سے چئیرلفٹ لگائی گئی ہے

’ملتان سے مینگورہ تک کا ہمارا سفربہت اچھا گزرا مینگورہ کے بعد بحرین سے آگے مالم جبہ تک صرف 32 کلومیٹر کا فاصلہ ہمیں پانچ سے ساڑھے پانچ گھنٹے میں طے کرنا پڑا۔ سڑک اتنی خراب تھی کہ گاڑی 10 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے آگے نہیں بڑھی۔‘

مالم جبہ میں ایک وسیع و عریض ریزوٹ زیر تعمیر ہے
مالم جبہ میں ایک وسیع و عریض ریزوٹ زیر تعمیر ہے

’سڑکیں شکستگی کا شکار ہیں۔ انفراسٹرکچر خراب ہے، کھانے پینے کے مسائل ہیں اور ہوٹلوں کی حالت اتنی خستہ ہے کہ مقامی لوگ بھی یہاں قیام نہیں کرتے۔ ایسے میں غیر ملکی سیاح تو کیا ہم جیسے مقامی لوگوں کے لیے بھی ملک کی خوب صورتی دیکھنا ممکن نہیں۔‘

شیئر: