Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شرفو! حالات اچھے نہیں ہیں

پاکستان میں مزدور کی کم از کم اجرت 15 ہزار روپے مقرر ہے مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا
مالک بہت  وقت گزر گیا ہے مہربانی کیجیے مجھے میری تنخواہ دے دیجئے. ہاں بھئی جونہی میرے ہاتھ میں پیسے آئیں گے تم سب کو پہلے پیسے دوں گا۔
 جی مالک!
اچھا سنو! وہ  بینک سے لوگ آنے والے ہیں ذرا اُں کا  بندوبست کر لو۔
بندوبست! صاحب بندوبست ہی کریں۔ میرے حالات کافی بگڑ گئے ہیں۔ میں آپ کو کچھ نہیں کہتا کہ کہیں آپ خفا نہ ہو جائیں۔
نہیں نہیں شرفو! تمہیں تو پتہ ہے کہ میں نے تمہارا ہمیشہ خیال رکھا ہے مگر کیا کروں مُلک کے حالات اچھے نہیں۔
صاحب کچھ خیال کر لیں پانچ مہینے گزر گئے ہیں۔ میرے پاس کچھ نہیں بچا کہ میں خرچ کر سکوں۔ 
شرفو! حالات اچھے نہیں ہیں۔
اور سنو! تم باجی کو کلب سے لے آؤ۔
صاحب جی! ہم تو غریب آدمی ہیں مالی، چوکیدار، باورچی ہمارے اخراجات اگر پورے نہیں ہوتے تو آپ کا گزارا بھی مشکل ہوگیا ہوگا۔
بس شرفو! کیا بتاؤں کہ مُلک کے حالات نہیں اچھے ورنہ تم میرے خاص بندے ہو۔ سنو! چھوٹے صاحب کی ٹیوشن کی فیس پہنچا دی تھی؟
پہنچا دی تھی۔ صاحب جی پہنچانا ہی تھی، صاحب جی، مائی کے لیے دوائی پہنچانی تھی اگر آپ میری تنخواہ کا کچھ کر دیتے۔
شرفو شرفو! میں کہہ چکا ہوں کہ جونہی میرے ہاتھ کُھلتے میں سب کو تنخواہ دے دوں گا۔ دراصل شرفو! میری پیمنٹس رکی ہوئی ملکی حالات نہیں ٹھیک۔
اچھا حالات نہیں ٹھیک صاحب جی؟

ہاں ذرا ریسٹورنٹ چلو وہاں کھانا دینا ہے۔ دبئی سے پارٹی آئی ہے۔
صاحب جی دربان والے ہوٹل جانا ہے جی؟
ہاں!
صاحب جی!  دربان والے ہوٹل کے مالک کے بھی حالات اچھے نہیں ہیں کیا؟ کیونکہ مُلک کے حالات اچھے نہیں ہیں؟
ہاں اچھا وہ دبئی والی فائل دینا۔
کونسی؟
وہ جو نیا گھر لیا ہے۔
گھر.... صاحب جی گھر کا کرایہ دینا ہے اور مالک مکان روز ذلیل کرتا ہے۔ کہتا ہے کہ پیسے دو میں مفت میں نہیں رہنے دوں گا۔ میں نے کافی دفعہ کہا کہ ارے پاگل تمہیں نہیں پتہ مُلک کے حالات خراب ہیں۔ صاحب جی اُس نے میرے چہرے پر زوردار تھپڑ جڑتے ہوے دھمکی دی کہ اگر میں نے دو دن میں پیسے نہ دیے تو وہ مجھے دھکے دے کر نکال دے گا۔ مجھے اگر ایک ماہ کی تنخواہ دے دیتے تو....
شریف الدین! (بھڑک لگاتے ہوئے)
مالک، میں نے بہت کہا ہے مکان مالک سے کہ میرا صاحب اس ملک کا سب سے شریف آدمی ہے اور اُس نے آج تک کسی کے پیسے نہیں رکھے۔ وہ ہمیشہ ایمانداری سے پیسے دیتا ہے وہ اب بھی دے دے گا۔ مگر وہ تو مجھے مارتا ہی گیا۔ اُس نے مجھے گھر سے باہر پھینک دیا اور گھر کے باہر سب کے سامنے کہا کہ وہ تمہارا مالک ہے اور میں اس گھر کا مالک ہوں۔ میں پانچ مہینے انتظار نہیں کر سکتا۔ تم چاہوتو نوکری چھوڑ دو۔
صاحب جی! بیٹی بیمار ہے ہماری۔  میں جب ڈاکٹر کے پاس لے کر گیا تو اس نے  مجھ سے ہزار روپے مانگے، میں نے آپ کا نام لے کر بتایا کہ آپ ملک کے کتنے عزت دار آدمی ہیں لیکن وہ کہتا ہے کہ تمہاری بیٹی کو تب دیکھوں گا جب تم پیسے لاؤ گے۔ میں اس کے پیروں میں بیٹھ گیا، کہا بھی کہ ملک کے حالات اچھے نہیں مگر وہ مانتا ہی نہیں۔
مالک میرے گھر میں راشن نہیں ہے۔ بیوی کو بھی کام پر لگا دیا ہے وہ کماتی ہے تو بڑی  مشکل سے ایک وقت روٹی آتی ہے۔
صاحب جی میرے بیٹے نے سکول میں ٹاپ کیا ہے ٹاپ! مجھے سکول والوں نے  آنے کو  کہا۔ میں بہت خوش تھا جب وہاں پہنچا تو وہ بولے بیٹا لائق ہے تمہارا مگر اس کو ہم اس کو سکول سے نکال رہے ہیں۔ میں نے پوچھا کمبخت کیوں نکال رہے ہو۔ کیا کوئی شرارت کی ہے اس نے؟ وہ بولے نہیں یہ تو بہت شریف ہے تو میں نے کہا پھر کیوں نکال رہے ہو، تو کہتے ہیں فیس جمع کروا دو ہم دوبارہ رکھ لیں گے۔

میں نے کہا جانتے ہو میرا صاحب اس ملک کا کتنا با اثر انسان ہے. صاحب کے بولنے سے لوگ بغاوت میں کھڑے ہوتے ہیں اس کے اشارے پر حکومتیں بیٹھ جاتی ہیں۔ اس کے دیکھتے  ہی ادارے کانپ جاتے ہیں اور فیصلے اپنا رخ بدل  لیتے ہیں۔ وہ اتنا طاقتور ہے کہ اپنے قلم کی سیاہی سے مقدر کالے کر دیتا ہے۔ وہ بولے، جاؤ جاؤ پیسے لاؤ پھر بات کرنا، مجھے اور میرے بیٹے کو دھکے دیے۔ صاحب میں نے آپ کی کمپنی کے دستاویزات بھی دکھائے مگر وہ  کمینے مانے نہیں کہ آپ کسی کے پیسے رکھیں گے۔
جب بچہ روتا ہے ناں صاحب تب کچھ نظر نہیں آتا، اور اس کو بتاتے بھی رہو کہ میرا سیٹھ اچھا آدمی ہے پیسے دے دے گا وہ بےوقوف خاموش ہی نہیں ہوتا۔ بھوک آپ کی عظمت نہیں دیکھتی صاحب، جسم کو توڑتی رہتی ہے۔ 
میں نے چوک چوراہوں میں آپ کے نام سے ڈنڈے کھائے ہیں۔ صاحب! آج میں اپنی محنت کی تنخواہ مانگ رہا ہوں، آپ کا حق نہیں۔ آج میں اپنے بچوں کی زندگی مانگ رہا ہوں آپ کا خون نہیں۔ آج میں اپنے اعتماد کی گواہی مانگ رہا ہوں صاحب اور کچھ نہیں۔ میں ہمیشہ آپ کی خوشی میں خوش رہا ہوں۔ آپ کے دکھ میں رویا ہوں۔ آندھی طوفان میں آپ کے لیے کھڑا رہا ہوں۔ آپ کو چھوڑ کر نہیں گیا کیا یہ میرا قصور تھا؟ آپ نے ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے محلّات بنا لیے۔ بیرون ملک جائیدادیں بنا لیں لیکن ہم وہیں رہے۔ آپ کے ساتھ سوکھے ٹکڑے کھائے، جوتے کھائے اور غدار کہلائے آپ سے مانگا کیا؟ تنخواہ صرف اپنے خون پسینے کی کمائی۔
ہماری تنخواہ دے دو سیٹھ صاحب! ہماری تنخواہ دے دو!

شیئر: