Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فیس بک پر کروڑوں جعلی اکاؤنٹس کا مقصد کیا ہے؟

فیس بک نے گزشتہ چھ ماہ میں تین سو کروڑ سے زائد جعلی اکاؤنٹس بلاک کیے ہیں
فیس بک کی جانب سے گزشتہ چھ ماہ کے دوران تین بلین یعنی تین سو کروڑ سے زائد جعلی اکاؤنٹس کو بلاک کیے جانے کے حیران کن اعدادوشمار سوشل نیٹ ورک سائٹس کو درپیش ان چیلیجز پر روشنی ڈالتے ہیں جن کا سامنا یہ جعلی اکاؤنٹس کی بندش کے حوالے سے کر رہے ہیں۔ 
لیکن اتنے زیادہ جعلی اکاؤنٹس آخر بنتے کیسے ہیں؟
فیس بک کے مطابق اس نے رواں ہفتے کے دوران ایک سو 20 کروڑ جعلی اکاؤنٹس بند کیے ہیں جبکہ سنہ 2018 کے آخری تین ماہ میں 219 کروڑ اکاؤنٹ بند کیے گئے تھے۔
اس میں سے زیادہ تر جعلی اکاوئنٹس ایسے ہیں جو اپنے مطلب کی معلومات کو فیس بک پر شئیر کرنے کے لیے ایک مخصوص طرح کے سافٹ وئیر سے بنائے اور چلائے جاتے ہیں۔ ایسا کرنا اگرچہ فیس بک کے قوانین کی خلاف ورزی ہے تاہم سوشل میڈیا کی سوجھ بوجھ رکھنے والے افراد اپنے مقاصد کے لیے ایسے سافٹ وئیرز کے ذریعے کروڑوں  جعلی اکاوئنٹس بنا سکتے ہیں۔
فیس بک کا دعویٰ ہے کہ اس کی آرٹیفیشل انٹیلی جنس ٹیکنالوجی سافٹ وئیر سے بنائے جانے والے اکاؤنٹس کو کچھ پوسٹ کرنے سے قبل ہی بند کر دیتی ہے۔ تاہم اس کے باوجود فیس بک کا ماننا ہے کہ 200 کروڑ سے زائد فعال اکاؤنٹس میں سے تقریباً پانچ فیصد اکاؤنٹ جعلی ہیں۔
جعلی اکاؤنٹس کا نقصان کیا ہے؟
جعلی اکاؤنٹس کا استعمال کسی فرد یا تحریک کی مقبولیت کو بڑھانے یا کم کرنے کے لیے کیا جا سکتا ہے۔

فیس بک کا دعوی ہے کہ وہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ذریعے جعلی اکاؤنٹس کو بند کرتی ہے
فیس بک کا دعوی ہے کہ وہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ذریعے جعلی اکاؤنٹس کو بند کرتی ہے

محققین کے مطابق 2016 میں امریکہ میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں جعلی اکاونٹس نے سوشل میڈیا پر صارفین تک غلط معلومات پہنچانے میں غیر معمولی کردار ادا کیا تھا۔ دُنیا کے مختلف حصوں میں جرائم پیشہ افراد کی جانب سے جعلی اکاونٹس کو عام لوگوں کے درمیان بے اعتمادی اور سماجی تقسیم پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کئی بار تو جعلی اکاؤنٹس کا استعمال کسی مخصوص فرد یا گروہ کے خلاف تشدد کو فروغ دینے کے لیے بھی کیا جاتا ہے۔  
سوشل میڈیا پر جعلی اکاوئنٹس کے لیے استعمال ہونے والے سافٹ وئیرز پر تحقیق کرنے والی کمپیوٹر سائنسدان کیتھلین کارلی کے مطابق 'سافٹ وئیر سے چلنے والے جعلی اکاؤنٹس محض غلط معلومات پھیلانے تک محدود نہیں رہتے بلکہ یہ گروپس بناتے ہیں اور انہیں دوسرے گروپوں کے ساتھ جوڑتے ہیں۔'
ان کے بقول 'یہ ایک مخصوص گروہ کے لوگوں کو یقین دلا سکتے ہیں کہ وہ ویسا ہی سوچتے ہیں جیسا دوسرے لوگ سوچتے ہیں۔ نتیجاً وہ ایک ہم خیال گروپ وجود میں آجاتا ہے۔
فیس بک اینالیٹکس کے نائب صدر ایلیکس سکولز اپنے ایک بلاگ میں لکھتے ہیں کہ فیس بک آرٹیفیشل انٹیلیجنس ٹیکنالوجی کے ذریعے ایسے اکاؤنٹس کو بلاک کرتا ہے جو مشکوک ای میل اکاؤنٹس کا استعمال کر رہے ہوں، ان کی پوسٹیں مشکوک ہوں یا ان کا تعلق ایسے فیس بک اکاؤنٹس کے ساتھ ہو جن کو ہم پہلے ہی بند کر چکے ہوں۔'  
کیا صورت حال فیس بک کے قابو میں ہے؟
امریکہ کی نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی کے سینٹر فار کمپلیکس نیٹ ورک میں پوسٹ ڈاکٹریٹ کرنے والے محقق اونور وارول کہتے ہیں کہ 'فیس بک کی جانب سے جاری کیے جانے والے اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ فیس بک جعلی اکاؤنٹس کے خلاف جارحانہ اقدامات کر رہی ہے۔
'300 سو کروڑ جعلی اکاؤنٹس ایک بڑی تعداد ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فیس بک کسی بھی جعلی اکاونٹ کو چھوڑنا نہیں چاہتی۔ لیکن ایسا کرنے میں فیس بک کچھ اصلی اکاؤنٹس کو بند کرنے کا خطرہ مول لینے کو بھی تیار ہے۔'

300 سو کروڑ جعلی اکاؤنٹس ایک بڑی تعداد ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فیس بک کسی بھی جعلی اکاونٹ کو چھوڑنا نہیں چاہتی
300 سو کروڑ جعلی اکاؤنٹس ایک بڑی تعداد ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فیس بک کسی بھی جعلی اکاونٹ کو چھوڑنا نہیں چاہتی

ان کا کہنا ہے کہ اصلی اکاؤنٹس کو مشکلات کا سامنا تو ضرور کرنا پڑتا ہے مگر یہ عام طور پر بحال ہو جاتے ہیں۔ 'میرا ماننا ہے کہ فیس بک جعلی اکاؤنٹس کو ختم کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کر رہی ہے۔'
تاہم کارلی کہتے ہیں جعلی اکاؤنٹس بنانے والے سافٹ وئیرز دن بدن مزید پیچیدہ ہو رہے ہیں کیونکہ وہ تقریباً اسی زبان کا استعمال کر سکتے ہیں جس کا عام انسان کرتے ہیں۔
'فیس بک نے شاید ماضی کا مسئلہ تو حل کر لیا ہے مگر ٹیکنالوجی ہر گزرتے دن کے ساتھ ترقی کررہی اور شاید نئے سافٹ وئیرز پر قابو پانا آسان نہیں۔'
کارلی کی اس بات سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے اونور وارول کہتے ہیں کہ اس ضمن میں تحقیقاتی کام جاری رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔
کیا جعلی اکاؤنٹس کے بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت ہے؟
محقیقن کا خیال ہے کہ بہت سارے سوشل میڈیا صارفین جعلی اور اصلی اکاؤنٹس میں فرق نہیں کر سکتے تاہم فیس بک اور ٹوئٹر اپنے تئیں مختلف سافٹ وئیرز کے ذریعے جعلی اکاؤنٹس کے خاتمے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
انڈیانہ یونیورسٹی میں سوشل میڈیا پر تحقیق کرنے والے فلیپو منزر کہتے ہیں کہ 'اگر آپ اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ بات چیت کے لیے فیس بک کا استعمال کرتے ہیں تو آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم اگر آپ اپنے اکاؤنٹ کو خبریں پڑھنے اور شئیر کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں تو آپ کو احتیاط برتنی چاہیے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ بہت سے صارفین اس بات پر توجہ نہیں دیتے کہ معلومات کہاں سے آرہی ہیں لہذا وہ چھوٹی یا گمراہ کن معلومات شئیر کر دیتے ہیں۔ 'سب سمجھتے ہیں کہ انہیں دھوکہ نہیں دیا جاسکتا مگر ہم سب غیر محفوظ ہیں۔‘

شیئر: