Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ میں نے جب امریکی فوجیوں کو ابوبکر البغدادی کے ٹھکانے کا بتایا‘

برطانوی جریدے گارجین نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ داعش کے ایک جنگجو کی بیوہ نسرین اسد ابراہیم نے امریکہ کی ایجنسی سی آئی اے کو شدت پسند تنظیم داعش کے رہنما ابو بکر البغدادی کے خفیہ ٹھکانے کی اطلاع دی تھی تاہم سی آئی اے اسے پکڑنے میں ناکام رہا۔
 رپورٹ کے مطابق جب امریکی فوج نے نسرین کو گرفتار کیا تھا تو اس کے بعد اس نے سی آئی اے اور کرد انٹیلی جنس کو ابو بکر البغدادی کے خفیہ ٹھکانوں کے بارے میں اہم معلومات کے علاوہ ان کے نیٹ ورک کے متعلق بھی تفصیلات سے آگاہ کیا تھا۔
نسرین نے فروری 2016ء کو عراق کے شمالی شہر موصل میں ایک مکان کی نشاندہی کی تھی جس کے بارے میں یہ یقین کیا جاتا تھا کہ ابو بکر البغدادی وہاں موجود ہیں تاہم اس مکان کا پتہ چلنے کےباوجود امریکی فوج نےکوئی کارروائی نہیں کی۔
نسرین اس وقت عراقی کردستان کے علاقائی دارالحکومت اربل میں قید ہیں، گارجین کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ’ میں نے امریکیوں کو مکان کے بارے میں بتایا تھا جہاں داعش کے رہنما ابو بکر البغدادی موجود تھے کیونکہ انھیں جو مکانات دیے گئے تھے،ان میں سے ایک یہ مکان تھا جہاں وہ رہنا پسند کرتے تھے۔‘
نسرین پر امریکی امدادی ٹیم کے رکن خاتون کیلہ میولر اور دوسری یرغمالی خواتین کو اپنے مکان میں زبردستی قید رکھنے کا الزام عائد کیا جا تا ہے۔ اخبار کے مطابق داعش کے لیڈر ابوبکر البغدادی نے اسی مکان میں امریکی خاتون کو مبینہ طور پر جنسی تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔


امریکی امدادی کارکن کیلہ میولر (فوٹو، اے ایف پی)

امریکی فوج نے نسرین ابراہیم کو مئی 2015ء میں شام کے مشرقی علاقے میں واقع عمر آئیل فیلڈ سےگرفتار کیا تھا۔ امریکی فوج کی اس کارروائی میں ان کا شوہر مارا گیا تھا۔ وہ داعش کا ایک سینئر رہ نما تھا جن کو ابو سیاف کے نام سے جانا جاتا تھا۔
اربل میں ایک فوجداری عدالت نے نسرین ابراہیم کو داعش سے تعلق کے جرم میں قصور وار قرار دے کر سزائے موت سنائی تھی۔
نسرین کے بقول امریکا کی امدادی کارکن کیلہ میولر کو ستمبر 2014ء میں شام کے مشرقی قصبے شدادی میں واقع ان کے گھر میں لایا گیا تھا۔ اس وقت عراق کے شمالی علاقے سے تعلق رکھنے والی ایزدی اقلیت سے تعلق رکھنے والی یرغمالی لڑکیوں کو بھی وہاں لایا گیا تھا۔ داعش کے جنگجو ان سینکڑوں لڑکیوں کی خرید وفروخت کرتے تھے۔


ایک یزیدی ڈاکٹر متاثرہ یزیدی خواتین کو نفسیاتی معاونت فراہم کرتے ہوئے (فوٹو،اے ایف پی)

نسرین کے مطابق کہ ’ کیلہ میولر سے ایزدی لڑکیوں سے بالکل مختلف سلوک کیا جاتا تھا۔ اس کے لیے ایک بجٹ مختص تھا اور اس کو خریداری کے لیے جیب خرچ دیا جاتا ہے۔ وہ بہت پیاری لڑکی تھی اور میں اس کو پسند کرتی تھی۔‘
نسرین نے بتایا کہ اس نے آخری مرتبہ کیلہ میولر کو 2014ء کے آخر میں دیکھا تھا۔ تب ابو بکر البغدادی عراق سے شام منتقل ہوئے تھے۔ وہ کیلہ کو ایک کار میں اپنے ساتھ الرقہ لے گئے تھے۔ 3ماہ کے بعد ا نھیں کیالا کی موت کی اطلاع ملی تھی۔
داعش کے جنگجوؤں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ کیالا فروری 2015ء میں امریکا کی قیادت میں داعش مخالف اتحاد کے لڑاکا طیاروں کے ایک فضائی حملے میں ہلاک ہوگئی تھی اور اس کی لاش تباہ شدہ عمارت کے ملبے ہی میں دب کر رہ گئی تھی۔
 اس امریکی امدادی کارکن کو داعش کے جنگجوؤں نے شام کے شمال مغربی شہر حلب سے اگست 2013ء میں اغوا کیا تھا ۔امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ابھی تک کیالا کی موت کے حالات واضح نہیں ہیں اور پُراسرار ہلاکت کے وقت اس کی عمر26 سال تھی۔

شیئر: