Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مودی کو مذاکرات کی پیشکش: 'بریک تھرو کا امکان نہیں'

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان  کی جانب سے انڈیا کو متعدد بار مذاکرات کی پیشکش کرنے کے باوجود ماہرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں دونوں ممالک کے درمیان حالات معمول پر آنے کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔
عمران خان نے سنیچر کے روز انڈین وزیراعظم نریندر مودی کو ایک خط کے ذریعے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے اور انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی کامیابی پر مبارک باد دیتے ہوئے دونوں ممالک کے تصفیہ طلب مسائل کے حل کے لیے مذاکرات کی پیشکش کی تھی۔
وزیراعظم پاکستان کی جانب سے انڈیا کو بات چیت کے ذریعے مسائل کے حل کی اس تازہ پیشکش پر اردو نیوز نے سیاستدانوں، سابق سفارت کاروں اور ماہرین سے بات چیت کی ہے۔
پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے انڈین وزیراعظم نریندر مودی کو لکھے گئے خط اور مذاکرات کی دعوت کو مثبت قدم قرار دیا ہے۔
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمران خان سفارتی سطح پر ثابت کر رہے ہیں کہ پاکستان کی سوچ مثبت ہے۔ اگر انڈیا نے مذاکرات سے انکار کیا تو ثابت ہو جائے گا کہ دونوں ممالک میں سے کون حالات نارمل نہیں کرنا چاہتا۔
اس حوالے سے سینیئر صحافی عارف نظامی کہتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے انڈیا کو بات چیت کی یہ تیسری پیشکش ہے لیکن مودی نے ابھی تک عمران خان کو کوئی مثبت جواب نہیں دیا یہاں تک کہ انہیں اپنی تقریب حلف برداری میں بھی مدعو نہیں کیا۔

وزیراعظم پاکستان عمران خان نے انڈین انتخابات سے قبل بھی وزیراعظم نریندر مودی کو مذاکرات کی دعوت دی تھی

انڈیا میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر عزیز احمد خان نے بھی عمران خان کی جانب سے مذاکرات کی دعوت کو خوش آئند قرار دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ عمران خان نے تو اچھی سوچ کا مظاہرہ کیا ہے لیکن انڈیا نے کافی عرصے سے پاکستان کے ساتھ بات چیت نہ کرنے کے حوالے سے ایک سخت موقف اپنا رکھا ہے اور وہ ابھی تک اس پر قائم ہے۔
بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکٹر مہدی حسن سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ ڈائیلاگ سے انکار کی وجہ بی جے پی کا مسلم دشمن پس منظر اور مسئلہ کشمیر ہے، مودی سمجھتے ہیں کہ اگر وہ پاکستان سے بات کریں گے تو ان کی ساکھ خراب ہو گی۔ وہ اپنے ووٹرز کو دکھانا چاہتے ہیں کہ وہ پاکستان کو دباؤ میں رکھنا چاہتے ہیں۔
سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری سمجھتے ہیں کہ انڈیا کے ساتھ بات چیت کی پیشکش عمران خان کی سفارتی سطح پر ایک مضبوط حکمت عملی کی نشاندہی کرتی ہے اور انہیں اس سلسلے میں فوج کی حمایت بھی حاصل ہے۔ 'جنرل باجوہ نے خود آن دی ریکارڈ یہ بات کہی ہے کہ انڈیا کے ساتھ بات چیت ہونی چاہیے۔'
عارف نظامی کہتے ہیں کہ پاکستان تو بات چیت چاہتا ہے لیکن تالی ہمیشہ دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے، ابھی تک ون وے ٹریفک ہی چل رہی ہے اور انڈیا نے پاکستان کے خلاف اپنا مخصوص رویہ برقرار رکھا ہوا ہے۔
  سابق سفارتکار عزیز احمد خان کا کہنا ہے کہ عمران خان کا یہ موقف ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات مذاکرات سے ہی بہتر ہو سکتے ہیں اور اسی لیے وہ کھلے دل اور مثبت سوچ کے ساتھ انڈیا کو بات چیت کی آفر کر رہے ہیں۔

خورشید قصوری کا کہنا ہے کہ پاکستان کی فوج بھی انڈیا سے بات چیت کی حامی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

خیال رہے کہ کرغزستان کے دارالحکومت بشکک میں 13 اور 14 جون کو شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس ہو رہا ہے جس میں پاکستان اور انڈیا کے وزرائے اعظم شرکت کریں گے۔ کیا اس موقعے پر پاک انڈیا تعلقات کے حوالے سے کوئی اچھی خبر مل سکتی ہے۔
اس حوالے سے عارف نظامی کو اس اجلاس سے کوئی خاص توقع نہیں، ان کا کہنا ہے کہ انڈیا پہلے ہی واضح کر چکا ہے کہ وزیراعظم مودی اجلاس کی سائیڈ لائن پر بھی وزیراعظم عمران خان سے ملاقات نہیں کریں گے۔
ڈاکٹر مہدی حسن کو بھی شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس سے زیادہ امیدیں وابستہ نہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہاں صرف ’ہیلو ہائے‘ ہی ہوگا، مذاکرات نہیں ہوں گے اور نہ ہی پاکستان کو اس سے کوئی فائدہ ہو گا۔
انڈیا میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر عزیز احمد خان کہتے ہیں کہ بشکک میں عمران خان اور نریندر مودی کے پاس ایک دوسرے سے ملنے کا اچھا موقعہ ہو گا، اگر انڈیا نے ہٹ دھرمی نہ دکھائی تو دونوں رہنماؤں میں ملاقات ہو سکتی ہے۔
ڈاکٹر مہدی حسن کا یہ بھی کہنا ہے کہ عمران خان کی کوششیں کامیاب نہیں ہوں گی اور انہیں مستقبل قریب میں دونوں ممالک کے درمیان بات چیت شروع ہونے کے امکانات نظر نہیں آ رہے۔
عزیز احمد خان کا کہنا ہے کہ مودی ابھی حال ہی میں الیکشن جیتے ہیں اور فی الحال وہ انچی اُڑان اُڑ رہے ہیں اسی لیے وہ مذاکرات کی میز پر نہیں آ رہے۔

شیئر: