Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وفاقی بجٹ 20 -2019: ’تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے

اپوزیشن کے اہم رہنماؤں کی قومی احتساب بیورو کے ہاتھوں گرفتاریوں کے بعد قومی اسمبلی میں بجٹ  سیشن ہنگامہ خیز ہونے کی توقع تھی۔ شاید اسی لیے اجلاس کے دوران پریس گیلری کچھا کچھ بھری ہوئی تھی۔ تماشہ دیکھنے کے لیے آنے والوں کو مایوسی نہ ہوئی اور اپوزیشن کے بھر پور احتجاج کے بعد وزیراعظم عمران خان کے طنزیہ اشاروں نے سیشن کو کسی کرکٹ میچ کی طرح  سنسی خیز بنا دیا۔
صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے اجلاس سے قبل ہی متحدہ اپوزیشن اور حکومت نے اپنے علیحدہ علیحدہ اجلاسوں میں حکمت عملی طے کر لی تھی۔ اجلاس شروع ہوا تو تلاوت کے بعد سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے قواعد کے تحت ایوان کو بتایا کہ ممبرقومی اسمبلی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین آصف علی زرداری کو نیب نے جعلی اکانٹس کیس میں گرفتار کر لیا ہے انہوں نے الزامات کی تفصیلات سے بھی ممبران کو آگاہ کیا۔ یاد رہے کہ قومی اسمبلی کے قواعد کے تحت کسی ممبر کی گرفتاری کی صورت میں گرفتار کرنے والے ادارے کے لیے لازم ہے کہ وہ سپیکر کو تحریری طور پر گرفتاری اور اس کی وجوہات سے آگاہ کرے اور سپیکر کے لیے لازم ہے کہ وہ تفصیلات ایوان میں دیگر ممبران کے سامنے پیش کرے۔
تاہم جب سپیکر ایوان کوتفصیلات سے آگاہ کر رہے تھے اس وقت آصف زرادی کے صاحبزادے بلاول بھٹو اور ان کی جماعت کے دیگر ارکان اسمبلی ہال میں موجود نہیں تھے۔ تاہم وزیراعظم عمران خان اسی وقت ایوان میں فاتحانہ انداز میں داخل ہو رہے تھے۔ جب وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر نے بجٹ تقریر شروع کی تو بلاول اور اپوزیشن کے دیگر رہنما ایوان میں آگئے۔
تقریر کے آغاز میں ایوان کا ماحول پرامن رہا البتہ اپوزیشن کے چند اراکین ہاتھوں میں ’آئی ایم ایف بجٹ نامںظور‘ کے رنگ برنگے کتبے اٹھا کر کھڑے رہے۔ اور کبھی کھبار ان میں سے کوئی نعرہ بھی لگا دیتا تھا۔ اس دوران وزیراعظم عمران خان کانوں پر ہیڈ فون لگا کر تسبیح  ہاتھ میں لیے پرسکون بیٹھے تھے۔


اپوزیشن اراکین نے بجٹ کے دوران احتجاج کیا 

تاہم جوں ہی  حماد اظہر نے  بجٹ میں حکومت کی جانب سے لگائے جانے والے نئے ٹیکسوں کا ذکر شروع کیا مسلم لیگ نواز کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو  کے پاس گئے اور ان سے کچھ لمحے بات کی ۔بس پھر کیا تھا دیکھتے ہی دیکھتے اپوزیشن کے ارکان جوق در جوق اپنی نشتوں سے اٹھ کر وزیراعظم کی کرسی کے سامنے جمع ہونا شروع ہو گئے۔
اس دوران کمال پھرتی سے کابینہ ارکان علی محمد خان اور شہریار آفریدی اٹھے اور چند دیگر حکومتی ارکان کے ساتھ وزیراعظم کے سامنے ایک حفاظتی دیوار بنا دی۔ تاہم اپوزیشن ارکان وزیراعظم کے سامنے ہاتھوں میں کتبے لے کر کھڑے ہوئے جن پر مختلف نعرے درج تھے ۔ کسی کتبے میں مہنگائی کی مذمت تھی تو کسی میں حکومت کی۔ ایک کتبے پر لکھا تھا ’عوام سے روٹی کا نوالہ مت چھینو‘ ایک پر تحریر تھا ’جھوٹے وعدے نہ کرو۔‘
اسی دوران ارکان نے زور دار نعرے بازی شروع کر دی جس میں حماد اظہر کی آواز کہیں گم ہی ہو گئی۔ گیلری میں موجود ایک سینئر صحافی نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت یہی چاہتی تھی کہ ٹیکسوں کی بات سنائی نہ دے۔
تاہم اپوزیشن کے ارکان کے نعروں میں شدت آتی گئی۔ حیرت انگیز طور پر ان کے نعروں میں بجٹ موضوع نہ تھا ۔ بلکہ کہیں ’گو نیازی گو‘ کی آوازیں آ رہی تھیں تو کہیں عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان پر کرپشن کے الزامات لگائے جا رہے تھے۔
 اس موقع پر پریس گیلری سے آواز آئی تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ جو نعرے پی ٹی آئی نواز شریف کے دور حکومت میں ان کے خلاف لگاتی تھی آج وہی نعرے وزیراعظم عمران خان کے خلاف ایوان میں بلند ہو رہے ہیں۔
 نعروں کی شدت بڑھی تو عمران خان نے اپنا رخ پچھلی نشتوں کی طرف کر لیا جہاں کابینہ کے ممبران مراد سعید، فواد چوہدری اور ڈپٹی سپیکر قاسم سوری بیٹھے تھے۔ مراد سعید احتجاج کے دوران بار بار عمران خان کے کان میں کچھ کہتے رہے۔
 دوسری طرف اپوزیشن بنچوں پر بلاول بھٹو کے پاس حکومتی اتحادی اخترمینگل محو گفتگو رہے۔ اس سے ان خدشوں کو تقویت ملی کہ شاید بجٹ پر ووٹنگ کے دوران مینگل اور ان کی جماعت حکومت کو ووٹ نہ دے جس سے بجٹ منظور کراتے وقت حکومت مشکلات کا شکار ہو سکتی ہے۔

 اسی دوران  حکومتی وزیر فیصل واوڈا بلاول کے پاس گئے اور شاید ان سے احتجاج ختم کرنے کی درخواست کرتے رہے۔ تاہم احتجاج جاری رہا۔
اس دوران دلچسپ امر یہ تھا کہ جہاں شاہد خاقان عباسی اپنے احتجاجی اراکین کے ساتھ کھڑے تھے وہیں  قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈ ر اور مسلم لیگ نواز کے صدر شہباز شریف تمام ہنگامے سے الگ تھلگ چپ چاپ اپنی نشت پر موجود رہے۔ وہ حال ہی میں لندن میں طویل ’طبی رخصت‘ کے بعد واپس آئے  ہیں۔ تاہم ان کو دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ وہ  شاید ذہنی طور پر ابھی بھی یہاں موجود نہیں ہیں۔ ویسے بھی ان کے لندن قیام کے دوران پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے اور ان کی جماعت کی تقریبا تمام نچلی لیڈرشپ ان کے بڑے بھائی نواز شریف کے قریبی ساتھیوں کے پاس جا چکی ہے۔
ہنگامے کے دوران پتا ہی نہ چلا کہ کب بجٹ تقریر ختم ہو گئی اور سپیکر نے اجلاس ملتوی کرنے کا اعلان کر دیا۔ تاہم شاید پکچر ابھی باقی تھی۔ اجلاس ختم ہونے کے اعلان کے ساتھ ہی جب سب اراکین جانے لگے تو وزیراعظم عمران خان اپنی نشست پر کھڑے ہوئے اور اپوزیشن کے طرف مڑ کر اپنے دونوں ہاتھوں سے احتجاج جاری رکھنے کا طنزیہ اشارہ کرتے ہوئے تیزی سے ایوان سے باہر روانہ ہو گئے۔  

 

شیئر: