Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا آپ بھی ہر ہفتے کریڈٹ کارڈ جتنا پلاسٹک کھاتے ہیں؟

اگر ہم اپنے طرز زندگی پر تھوڑا غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ گھروں میں برتنوں سے لے کر باہر کھانے پینے والی تقریباً تمام اشیا پلاسٹک میں پیک ہوتی ہیں اور اس طرح یہ پلاسٹک ہمارے جسم میں مسلسل داخل ہوتا رہتا ہے۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ دنیا میں ہر شخص ہفتے میں پانچ گرام پلاسٹک کے ذرّات کھاتا ہے جن کا وزن ایک کریڈٹ کارڈ جتنا ہوتا ہے۔
خبررساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق یونیورسٹی آف نیو کیسل اور سائنسدانوں نے تحقیق کی ہے کہ پلاسٹک کے یہ ذرّات پانی کی بوتلوں میں ہوتے ہیں جو ہمیں نظر نہیں آتے۔
تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس طرح سے ہم ہر سال 250 گرام یا ایک پاؤ پلاسٹک کھاتے ہیں۔

نقشے میں واضح ہے کہ دنیا میں کہاں زیادہ پلاسٹک پایا جاتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ایک اور تحقیق کے مطابق امریکی شہری ہر سال میں پلاسٹک کے 45000 ذرّات کھاتے ہیں اور اتنی ہی تعداد میں پلاسٹک سانس کے ذریعے ان کے جسم میں بھی داخل ہو رہا ہوتا ہے۔
ورلڈ وائڈ فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے ڈائریکٹر جنرل مارکو لیمبر تینی کا کہنا ہے کہ ’پلاسٹک نہ صرف ہمارے پانی کو آلودہ کر رہا ہے، بلکہ یہ ہمارے جسم میں بھی جا رہا ہے۔‘
انہوں نے کہا ’ اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ ہمارے جسم  میں داخل نہ ہو تو ہمیں پلاسٹک کے استعمال کو روکنا ہوگا۔‘

ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق  پلاسٹک پانی کو آلودہ کرتا ہے اور ہمارے جسم میں بھی جارہا ہے۔

پاکستان میں پلاسٹک کا استعمال
روزمرّہ زندگی میں پلاسٹک کا استعمال پوری دنیا میں کیا جا رہا ہے، لیکن پاکستان جیسا ملک جہاں صحت کی سہولیات کا فقدان ہے ، پلاسٹک کا استعمال خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق پاکستان میں گھٹیا درجے کے پلاسٹک کا استعمال سنہ 1947 سے جاری ہے، لیکن 1965 سے لے کر 1975 تک اس کے استعمال میں بہت زیادہ اضافہ ہوا اور یہ ہماری زندگی کا حصہ بن گیا۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق پاکستان میں گھٹیا درجے کے پلاسٹک کا استعمال سنہ 1947 سے جاری ہے
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق پاکستان میں گھٹیا درجے کے پلاسٹک کا استعمال سنہ 1947 سے جاری ہے۔

آج پاکستان انڈیا کے بعد جنوب مشرقی ایشیا میں پلاسٹک کی دوسری بڑی مارکیٹ ہے اور یہ انڈسٹری سالانہ 15 فیصد کی اوسط سے بڑھ رہی ہے، اور یہ باقی تمام صنعتوں سے سبقت لے چکی ہے۔
پاکستان میں پلاسٹک کی وجہ سے لوگ شیشے، لکڑی اور مٹی کے برتنوں کا استعمال تقریباً ترک کر چکے ہیں، اور پلاسٹک کی اشیا بنانے والی فیکٹریاں پلاسٹک کا فضلہ استعمال کر رہی ہیں جو بین الاقوامی معیار کی خلاف ورزی ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق ہم خریداری کے لیے جو شاپنگ بیگ استعمال کرتے ہیں انہیں ختم ہونے میں 100 سے 600 برس لگ سکتے ہیں۔
’زیرو پلاسٹک‘ حکمت عملی
گرینڈ ویو ریسرچ کے مطابق جتنا پلاسٹک گذشتہ دو دہائیوں میں پیدا ہوا ہے اتنا انسانی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا اور 2025 تک دنیا میں پلاسٹک انڈسٹری میں 4 گنا اضافہ ہو جائے گا۔
یونیورسٹی آف نیو کیسل میں مائیکرو پلاسٹک کی ماہر تھاوا پلانی  کا کہنا ہے کہ ’ ایک ایسا طریقہ اختیار کرنے ضرورت ہے جس کی مدد سے انسانوں میں موجود پلاسٹک کے ذرات کو ماس میں تبدیل کرکے جانا جائے کہ اس زہر کے انسانی صحت پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔‘
گرینڈ ویو ریسرچ کے مطابق جتنا پلاسٹک گذشتہ دو دہائیوں میں پیدا ہوا ہے اتنا انسانی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا
ریسرچ کے مطابق جتنا پلاسٹک گذشتہ دو دہائیوں میں پیدا ہوا ہے اتنا انسانی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف کے گلوبل پلاسٹک پالیسی مینجر ایرک لینڈ برگ کے مطابق ’ دنیا کو پلاسٹک سے پاک کرنے کے لیے ہمیں ایک نئے معاہدے کی ضرورت ہے۔‘

شیئر: