Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’17 عرب ممالک پانی کی قلت کی انتہائی حد سے بھی نیچے‘

عرب ممالک میں پانی کی قلت کا مسئلہ بحران کی شکل اختیار کرنے لگا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس وقت لگ بھگ ساڑھے چھ کروڑ عرب شہری پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں جبکہ کل 22 میں سے 17 عرب ممالک پانی کی قلت کی انتہائی حد سے بھی نیچے چلے گئے ہیں۔
عالمی معیار کے مطابق فی کس سالانہ چھ ہزار کیوبک میٹر پانی درکار ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ کے تخمینے کے مطابق پانی کی قلت کی فی کس سالانہ کم از کم حد ایک ہزار کیوبک میٹر ہے تاہم عرب شہریوں کو اوسطاً فی کس پانچ سو کیوبک میٹر سے بھی کم پانی مل رہا ہے۔ 
دوسری جانب عرب ممالک میں خانہ جنگیوں، موسمی تبدیلیوں اور آبادی میں اضافہ بھی ہو رہا ہے جس سے پانی کا بحران مزید بڑھ رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی تنبیه
اقوام متحدہ نے قلت آب کے بارے میں عالمی رائے عامہ بیدار کرنے کے لیے خصوصی پروگرام شروع کیا ہے جسے 'پانی برائے پائیدار ترقی' کا عنوان دیا گیا ہے۔ اس 10 سالہ پروگرام کا آغاز 2018 میں کیا گیا تھا اور یہ 2028 تک جاری رہے گا۔
اس پروگرام کے تحت دنیا بھر کو ہر سال یہ بتایا جا رہا ہے اور بتایا جاتا رہے گا کہ صاف اور محفوظ پانی کا حصول کتنا مشکل ہے، خشک سالی کا خطرہ کس حد تک بڑھ ہو چکا ہے اور نکاسی آب کے مسائل سے مطلع کرتے رہنا بھی اس پروگرام کا حصہ ہے۔ 

آئندہ سالوں میں پانی کی قلت مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔
آئندہ سالوں میں پانی کی قلت مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔

پانی کا مسئلہ کتنا گمبھیر ہے؟
عرب واٹر کونسل میں گورنرز کونسل کے رکن ڈاکٹر خالد ابوزید نے المجلہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ عرب لیگ کے ماتحت عرب واٹر کونسل رکن ممالک میں آبی وسائل، ان کی قلت اور ضیاع کے حوالے سے تحقیق کی گئی ہے۔
ان کے مطابق 22 عرب ممالک میں تین سالہ تحقیق کے بعد پانی کے مسائل پر خصوصی رپورٹ جاری کی گئی ہے جس میں خبردار کیا گیا ہے کہ عرب دنیا میں پانی کا بحران سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ 
ڈاکٹر ابوزید نے بتایا کہ عرب ممالک میں میٹھے پانی کے سالانہ ذخائر 91 ارب کیوبک میٹر ہیں جبکہ ان ممالک کو سالانہ 145 ارب کیوبک میٹر پانی کھیتی باڑی کے لیے مل رہا ہے۔ اسی طرح 74 ارب کیوبک میٹر پانی غیر روایتی طریقوں سے عرب دنیا کو حاصل ہو رہا ہے۔
ابوزید نے بتایا کہ گھروں اور شہروں میں پانی کے نیٹ ورک سے سالانہ 5.8 ارب کیوبک میٹر پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ عرب ممالک میں پانی کا نیٹ ورک فرسودہ ہو چکا ہے اور اس کے جوڑوں میں ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے پانی اچھی خاصی مقدار میں ضائع ہو جاتا ہے۔
ابوزید بتاتے ہیں کہ عرب ممالک میں پانی کی قلت کے باعث سالانہ 565 کیوبک میٹر پانی ایک شخص کے حصے میں آرہا ہے۔
ان کے مطابق تقریباً آٹھ لاکھ عرب پاشندوں کو محفوظ نکاسی آب کی سہولت میسر نہیں ہے جبکہ آبادی کھیتی باڑی والے علاقوں میں پھیلتی جا رہی ہے جس کی وجہ سے بھی پانی کی قلت بڑھ رہی ہے۔ 


استعمال شدہ پانی کو دوبارہ استعمال کے قابل بنانے کے لیے واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس لگانا ہوں گے۔

عرب ممالک میں خوراک کا بحران 
ڈاکٹر ابوزید کا کہنا ہے کہ آبی وسائل میں کمی کے باعث عرب ممالک میں کھیتی باڑی کا دائرہ بھی محدود سے محدود تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس وقت عرب ممالک تقریباً 70 ارب ڈالر مالیت کی زرعی پیداوار درآمد کر رہے ہیں۔
فوری حل کیا ہے؟
الازھر یونیورسٹی میں ماحولیات اور زراعت کے شعبے کے سربراہ اور آبی مطالعات کے ماہر ڈاکٹر خالد غانم کا کہنا ہے کہ 'ہمیں آبپاشی کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہو گا۔ پانی کے مسائل پر ریسرچ کا سلسلہ بڑے پیمانے پر قائم کرنا ہو گا اور ساتھ ہی ساتھ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کے رواج کو بھی فروغ دینا ہو گا۔'
ان کا مزید کہنا ہے کہ آبپاشی میں آنے والی جدید تبدیلیوں سے اپنے کاشتکاروں کو واقف کرانے کے علاوہ انہیں نئے طور طریقے اپنانے کی ٹریننگ بھی دینا ہو گی۔ ایسی فصلوں پر توجہ دینا ہو گی جو شدید گرمی اور کھاری زمینوں پر بھی پیدا ہو سکتی ہوں۔ ایسی اشیاء کی کھیتی باڑی سے بچنا ہو گا جن کو آبپاشی کے لیے زیادہ پانی چاہیے ہوتا ہے۔
علاوہ ازیں ریگستان والے عرب ممالک کو پانی کے مثالی استعمال کے طور طریقے دریافت کرنے اور اپنانے کے لیے خصوصی مشترکہ ادارے قائم کرنا ہوں گے۔ 
پانی کے حصول کے لیے غیر روایتی ذرائع کا استعمال
ڈاکٹر غانم نے بتایا کہ 'ہمیں پانی کے حصول کے لیے غیر روایتی ذرائع کو بھی فروغ دینا ہوگا۔ مثال کے طور پر زیر زمین آبی ذخائر دریافت کرنے کے لیے ریموٹ سینس ٹیکنالوجی استعمال کرنا ہو گی۔ پانی کے ذخائر سے متعلق تازہ ترین ترین معلومات حاصل کرنے کے لیے خلائی تصاویر کا نظام اپنانا ہو گا اور کھیتی باڑی یا گھریلو ضروریات میں استعمال ہونے والے پانی کو دوبارہ استعمال کے قابل بنانے کے پروگرام ترتیب دینا ہوں گے۔'

شیئر: