Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گلزار محل کی کہانی اب بھی ادھوری

فلسطینی شاعر محمود درویش نے اپنی ایک نظم میں لکھا تھا کہ ’گھر ماں کے ہاتھ کی بنی ہوئی کافی پینے کا نام ہے۔‘ مگر دنیا بھر میں گھر کی تعریفیں شاید الگ الگ ہیں۔ کسی کے لیے یہ دنیا جہاں کے کام کاج سے تھک ہار کر آرام کرنے کا نام ہے تو کسی کے لیے یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں آپ ہر قسم کا سکون حاصل کرتے ہیں۔ مگر گھر ایک ایسا ٹھکانا ہے، جہاں گھر کے افراد کو سکون بھی ملتا ہے تو ایک دوسرے کے دکھ سکھ بانٹنے کا موقع بھی مل جاتا ہے۔
سندھ میں آج بھی کئی ایسے گھر قائم ہیں، جو ہمیں تقسیم کی یاد دلاتے ہیں، مگر ان گھروں کی بدقسمتی یہ ہے کہ اب ان کے مکین تبدیل ہو چکے ہیں۔ جن میں سے کافی گھروں کی حالت اب خستہ حال ہے اور چند تو ایسے بھی ہیں جو فروخت ہو چکے ہیں۔
حیدر آباد میں ہیر آباد ایک ایسا محلہ ہے جہاں تقسیم سے قبل کے گھر بہت بڑی تعداد میں اب بھی موجود ہیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی حالت بھی بگڑتی جا رہی ہے۔ چند گھر ایسے بھی ہیں جو کہ ملکیت کے دعوے کے قانون (کلیم کے قانوں کے تحت ) 1947 میں حاصل کیے گئے تھے۔ یہ گھر ہندوستان سے آنے والی آبادی کی رہائش کے لیے مختص کیے گئے تھے۔ مگر ان میں سے چند ایسے بھی ہیں جن کے دروازوں پر آج بھی تالے چڑھے ہوئے ہیں جبکہ کئی گھر مسمار کرکے ان کی جگہ پلازے بنا دیے گئے ہیں۔
ایسی کئی عمارتیں سندھ کے کافی شہروں میں موجود ہیں۔ چند روز قبل ہی میں میرپور خاص گیا، وہاں میرے ایک دوست نے ایک ایسے ہی گھر کا ذکر کیا تھا، جو کہ گلزار محل کے نام سے جانا جاتا ہے۔

یہ گھر میرپور خاص کے ریلوے سٹیشن کے عقب میں ایک گلی میں واقع ہے جس کے نیچے کئی دکانیں بھی ہیں۔
کسی زمانے میں یہ گھر ہالا کے ایک خاندان کی رہائش گاہ تھا، جو کہ کافی برسوں تک اس میں مقیم تھا۔ مگر پھر وہ خاندان کراچی ہجرت کر گیا۔ میں نے اس خاندان کے حوالے سے معلومات لینے کی بہت کوشش کی مگر اس بارے میں کچھ معلوم نہیں ہو سکا اور نہ ہی ان کا کوئی فون نمبر مل سکا جس کے ذریعے رابطہ ہوسکتا۔
اس گھر کے حوالے سے میرپورخاص کے شہریوں کا کہنا ہے کہ یہ پرانے زمانے میں کسی سکھ خاندان کا گھر تھا جس کا نام گلزار تھا، جبکہ تقسیم کے بعد اپنی جان بچانے کے لیے یہ خاندان سندھ چھوڑ کر ہندوستان چلا گیا اور پھر یہ گھر ہالا کے خاندان کے حوالے ہوگیا۔ شاید ہالا کے اس خاندان نے گلزار محل کو اپنا گھر نہیں سمجھا لہٰذا اس کا جوبن ماند پڑ گیا اور رفتہ رفتہ گلزار محل کی دیواروں میں دراڑیں پڑنے لگیں، رنگین دروازوں اور کھڑکیوں کے رنگ بھی ماند پڑ گئے، روشن دان ٹوٹ کر بکھرنے لگے، رنگ و روغن وقت کی دھول میں میلا ہوگیا، اور یہ گھر وارث کے ہوتے ہوئے بھی لاوارث ہوگیا۔
گلزار محل کی بیرونی دیوار پر تعمیر کا سال 1943 لکھا ہوا ہے، جس پر گائتری منتر بھی درج ہے۔ مگر یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ گھر واقعی کسی سکھ خاندان کی ملکیت تھا تو اس پر گائتری منتر کیوں لکھا ہوا ہے، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ گھر کسی ہندو خاندان کا بھی رہا ہو۔

اس منتر کے معنی ہیں، ’اے پرماتما! تو بے ابتدا ہے، تو لافانی ہستی ہے، تیری مرضی سے یہ کائنات وجود میں آئی ہے اور تمام تر دنیا تجھ سے قائم ہے۔ تو سب کو پیدا کر کے رزق دیتا ہے، تو ہی سب کا سہارا، دکھوں کو ختم کرنے والا۔ اے جہان کے مالک! تم عظیم تر، عبادت کے لائق اور سب کے رہبر ہو۔‘
گلزار محل کے بیرونی حصے میں 10 سے 12 کھڑکیاں ہیں تاکہ گھر میں ہوا کا گزر بہتر انداز سے ہو سکے۔ جبکہ اندر ایک چھوٹا سا آنگن اور تین کمرے ہیں۔ کمرے اتنے کشادہ نہیں مگر ان میں لگی کھڑکیاں رنگین روشندانوں سے سجی ہوئی ہیں۔ جبکہ کمروں کے اندر الماریاں بھی لگی ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ گھر کے اندر ایک تجوری بھی ہے، کمروں کی دیواروں پر رنگ آج بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

اس زمانے میں گھروں کو مزید خوبصورت کرنے کے لیے گلکاری اور مختلف قسم کی سنگتراشی بھی کی جاتی تھی۔ سندھ میں تقسیم سے قبل تعمیر ہونے والے تمام تر گھروں میں اس قسم کی سنگ تراشی موجود ہے۔ گلزار محل کی دیواروں پر مور بنائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ دیواروں پر ایک خاص قسم کی گلکاری بھی کی گئی ہے۔ اس گھر میں داخل ہونے کے لیے ایک تنگ زینہ ہے، جوکہ گھر کے عقبی دروازے سے نکلتا ہے۔

آج یہ گھر برسوں سے بند ہے۔ زنگ آلود تالوں پر جالے جم گئے ہیں، اور کوئی بھی گھر کی ملکیت لینے کو تیار نہیں ہے۔ میں یہ تو نہیں جانتا کہ اس گھر کے حقیقی مالکان کون تھے اور ان کے لیے یہ گھر کتنا اہم رہا ہوگا مگر جن لوگوں نے بھی اس گھر میں شب و روز گزارے ہیں، ان کو کم از کم اس گھر کی دیکھ بھال ضرور کرنی چاہیے تھی۔ کیوں کہ آج میرپورخاص میں ہم جس گلزار محل کی خستہ حالت دیکھ رہے ہیں، آنے والے دنوں میں اس گھر کی دیواریں وقت کے ہاتھوں خستہ حال ہو جائیں گی اور میرپورخاص ایک ایسے گھر سے محروم ہو جائے گا، جس کی کہانی اب بھی نامکمل ہے۔ جس کے بارے میں یہ سچ جاننا بہت ضروری ہے کہ اس کے حقیقی مالکان کون تھے اور آج یہ گھر لاوارث کیوں ہے؟

شیئر: