Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’وسائل کی شدید کمی کے باوجود بیٹی کی کامیابی قابل فخر ہے‘

سونیا کے بھائی کھیل میں آگے بڑھنے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
تین فروری 2016 کو فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد جب اللہ دتہ کام پر نکلنے کی غرض سے اپنے گدھے کو ریڑھی میں جوت رہے تھے تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ آج کا سورج ان کے لیے نئی اُمیدوں اور خوشیوں کی نوید لے کر طلوع ہوگا۔
دوپہر کے وقت شہر کی ایک دُکان کے باہر دھوپ میں بیٹھے جب وہ گاہکوں کا انتظار کر رہے تھے تو ان کے فون کی گھنٹی بجی۔ فون سنتے ہی وہ اتنے پُرجوش ہوئے کہ ان کی آنکھیں نم ہوگئیں۔
یہ ان کی 52 سالہ زندگی میں شاید پہلا موقع تھا جب وہ غم نہیں بلکہ خوشی کے آنسو بہا رہے تھے۔

اکیس سالہ سونیا صدف 2016 سے اب تک پاکستان ویمن کبڈی ٹیم کی مستقل رکن ہیں۔

انھوں نے ’اردو نیوز‘ کو بتایا ’مجھ سے دوستوں نے پوچھا کہ تم نے اچانک رونا کیوں شروع کو دیا ہے، میں نے انہیں بتایا کہ میری بیٹی سونیا کا فون تھا، بتا رہی تھی کہ وہ پاکستان کی قومی کبڈی ٹیم میں منتخب ہو گئی ہے۔‘
52 سالہ اللہ دتہ صوبہ پنجاب کے ضلع فیصل آباد کی سب سے بڑی تحصیل جڑانوالہ کے نواحی گاؤں چک نمبر 128 گ ب میں ڈھائی مرلے کے بوسیدہ مکان میں رہتے ہیں۔
ان کے بقول تین فروری 2016 ان کی زندگی کا حسین ترین دن تھا۔ اس دن انہوں نے جیب میں قلیل رقم ہونے کے باوجود بازار اور محلے میں مٹھائی بانٹی تھی۔
وہ کہتے ہیں ’میرے سات بچے ہیں جن کو پالنے کے لیے میں نے زندگی بھر محنت مزدوری کی ہے، کبھی فیکڑی میں کام کیا تو کبھی گدھا ریڑھی چلا کر گھر کا خرچ چلایا لیکن وسائل کی شدید کمی کے باوجود میری بیٹی نے کامیابی کا طویل سفر طے کیا ہے، مجھے اس پر فخر ہے۔‘

52 سالہ اللہ دتہ صوبہ پنجاب کے ضلع فیصل آباد کی سب سے بڑی تحصیل جڑانوالہ کے نواحی گاؤں چک نمبر 128 گ ب میں ڈھائی مرلے کے بوسیدہ مکان میں رہتے ہیں۔

اکیس سالہ سونیا صدف 2016 سے اب تک پاکستان ویمن کبڈی ٹیم کی مستقل رکن ہیں۔ وہ ٹیم میں بطور ریڈر کھیلتی ہیں اور سنہ 2016 میں انڈیا میں ہونے والی بارہویں ساؤتھ ایشین گیمز کے ایک مقابلے میں پلیئر آف دی میچ کا اعزاز بھی اپنے نام کر چُکی ہیں۔
اس کے علاوہ وہ دسمبر 2016 میں ہونے والی پہلی نیشنل ویمن کبڈی چیمپیئن شپ میں واپڈا کی نمائندگی کرتے ہوئے پاکستان آرمی کے خلاف فائنل میچ جیت کر سونے کا تمغہ بھی حاصل کر چکی ہیں۔
سونیا بتاتی ہیں ’مجھے بچپن سے ہی اتھلیٹکس کا شوق تھا۔ پانچویں کلاس میں سکول میں سپورٹس ڈے منعقد ہوا تو میں نے دوڑ، ہاکی، باسکٹ بال، کرکٹ اور دیگر کھیلوں میں حصہ لیا۔ میرے بڑے بھائی محمد عبداللہ گاؤں میں لڑکوں کے ساتھ کبڈی کھیلا کرتے تھے، انہیں دیکھ مجھ میں بھی کبڈی کھیلنے کا شوق پیدا ہوا۔‘

گجر برادری میں لڑکیوں کا کھیلوں میں حصہ لینا تو درکنار، ان کا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا بھی اچھا نہیں سمجھا جاتا ہے۔

انہوں نے کبڈی کی ابتدائی تربیت بھی اپنے بڑے بھائی سے ہی حاصل کی ہے۔ عبداللہ پاکستان آرمی کی طرف سے کبڈی کھیلتے ہیں اور سونیا انہیں اپنا رول ماڈل تصور کرتی ہیں۔ 
ان کا کہنا ہے ’ہماری گجر برادری میں لڑکیوں کا کھیلوں میں حصہ لینا تو درکنار، ان کا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا بھی اچھا نہیں سمجھا جاتا مگر میں نے جب اپنے بھائی سے کہا کہ آپ کی طرح میں بھی کبڈی کھیلنا چاہتی ہوں تو انہوں نے نہ صرف مجھے اجازت دی بلکہ کھیل کے مختلف گُر بھی سکھائے۔‘
سونیا کو یاد ہے کہ جب وہ دسویں جماعت میں تھیں تو انہیں سکول کی طرف سے لاہور میں لگائے گئے ایک کبڈی کیمپ میں شمولیت کی اجازت بھی ان کے بھائی نے ہی دی تھی۔ یہ وہی کیمپ تھا جہاں موجود پاکستان قومی کبڈی ٹیم کے سلیکٹرز سونیا کے کھیل سے بہت متاثر ہوئے تھے اور انہوں نے انہیں قومی کبڈی کیمپ میں شرکت کے لیے چُنا تھا۔
انھوں نے بتایا ’2016 کے اوائل میں اسلام آباد میں ملک بھر سے آئی 50 لڑکیوں کا قومی کیمپ لگا تو میرے بھائی نے مجھے بہت حوصلہ دیا کہ تم اس قابل ہو کہ قومی ٹیم کا حصہ بن سکتی ہو، یہی وجہ تھی کہ یہاں بھی میری کارکردگی شاندار رہی اور مجھے قومی ٹیم کا حصہ بناتے ہوئے مزید ٹریننگ کے لیے ایران بھیج دیا گیا۔‘

سونیا اپنے کھیل کے ذریعے دُنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کرنا چاہتی ہیں مگر انہیں شکایت ہے کہ پاکستان میں خواتین کھلاڑیوں کو وہ سہولیات فراہم نہیں کی جاتیں۔

سونیا کے بقول شروع میں ان کے رشتے داروں اور گاؤں والوں نے طرح طرح کی باتیں کیں مگر انہوں نے کسی کی بات پر کان نہیں دھرے۔
انھوں نے کہا ’لوگ لڑکیوں کو کھیلتا نہیں دیکھ سکتے، ان کا کام باتیں کرنا ہے مگر بطور کھلاڑی ہمارا کام ہے کہ ہم اپنے کھیل پر توجہ دیں اور بہتر کارکردگی سے لوگوں کے دل جیتیں۔ شروع میں تنقید کرنے والے رشتے دار اب فخر سے بتاتے ہیں کہ سونیا ہماری بیٹی ہے۔‘
سونیا اپنے کھیل کے ذریعے دُنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کرنا چاہتی ہیں مگر انہیں شکایت ہے کہ پاکستان میں خواتین کھلاڑیوں کو وہ سہولیات فراہم نہیں کی جاتیں جو انڈیا اور ایران جیسے ممالک میں میسر ہیں۔

سونیا کے بقول شروع میں ان کے رشتے داروں اور گاؤں والوں نے طرح طرح کی باتیں کیں مگر انہوں نے کسی کی بات پر کان نہیں دھرے۔

وہ شکوہ کرتی ہیں ’پاکستان میں حکومت نے کرکٹ کو سر پر چڑھایا ہوا ہے، کبڈی، خاص طور پر خواتین کی کبڈی پر تو کوئی توجہ ہی نہیں دیتا۔ فیڈریشن والے جب میچ ہو تب بلاتے ہیں۔ عام دنوں کے دوران میں فٹنس برقرار رکھنے کے لیے اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ پریکٹس کرتی ہوں۔‘
اللہ دتہ کہتے ہیں کہ انھوں نے محنت مزدوری کرکے اپنی پانچ بیٹیوں اور دو بیٹوں کو یہی دن دیکھنے کے لیے پال پوس کر بڑا کیا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچوں کو ان کی طرح در در کی ٹھوکریں نہ کھانی پڑیں اور وہ اچھے عہدوں پر فائز ہو جائیں۔
اللہ دتہ کا کہنا ہے ’مجھے سونیا پر فخر ہے، میں والدین کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ بچیوں کو بھی آگے بڑھنے کا موقع دیں، وہ صلاحیتوں میں لڑکوں سے کم نہیں ہوتیں۔‘

شیئر: