Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’سینیٹ میں بلوچستان کی نمائندگی کو مذاق نہ بنایا جائے‘

جام کمال کا کہنا ہے کہ صادق سنجرانی کی صورت میں بلوچستان کو بہت عرصے بعد اعلیٰ فورم پر نمائندگی ملی
پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف اپوزیشن کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک لانے کی خبروں پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہا ہے کہ ان کی جماعت اور بلوچستان کے چیئرمین سینیٹ کو بے احترامی سے عہدے سے ہٹایا گیا تو صوبے کے لوگ اس فیصلے کو مثبت انداز میں نہیں دیکھیں گے۔ بلوچستان کی نمائندگی کو مذاق بنا کر اس کے ساتھ نہ کھیلا جائے۔ 
جمعے کی شب کوئٹہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ جام کمال کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت نہ صرف صادق سنجرانی کے ساتھ کھڑی ہے بلکہ تمام جماعتوں کے ساتھ رابطے کر کے اس بات کو بھی یقینی بنائے گی کہ ان حالات میں کوئی غلط فیصلہ کر کے بلوچستان کے لوگوں کو یہ پیغام نہ دیا جائے کہ ان کی نمائندگی چھینی جا رہی ہے۔ 
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے شخص کو چیئرمین سینیٹ بنانے کا فیصلہ طویل بحث و مباحثے کے بعد صوبے کے مسائل اور احساس محرومی کو سامنے رکھتے ہوئے کیا گیا تھا۔
چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ وہ فیصلہ تھا جس میں اپوزیشن کی کئی جماعتیں بھی شامل تھیں، خاص طور پر پیپلز پارٹی کا اس میں اہم کردار تھا، اب پیپلز پارٹی والوں کو کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے۔ 
جام کمال کا کہنا تھا کہ چیئرمین کے عہدے کی ایک آئینی مدت ہے جسے مکمل کرنے دینا چاہیے۔ مدت مکمل ہونے کے بعد حکومت اور حزب اختلاف اپنا فیصلہ کریں۔

سیاسی پنڈتوں کا ماننا ہے کہ حزب اختلاف سینیٹ کو اپنا سیاسی مورچہ بنانا چاہتی ہے۔
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ حزب اختلاف سینیٹ کو اپنا سیاسی مورچہ بنانا چاہتی ہے

’یہ معاملہ کسی صوبے یا ضلعے کی اسمبلی میں تبدیلی جیسا نہیں۔ بلوچستان میں کوئی بھی تحریک عدم اعتماد لانا چاہتا ہے تو ہم اس کے لیے راضی ہیں مگر سینیٹ وفاق کی علامت ہے وہاں بلوچستان سے اگر کوئی شخص چیئرمین منتخب ہوا ہے تو اسے ہٹانے کا یہ طریقہ نہیں۔ ایک وفاقی اکائی کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے اس معاملے پر غور غور و فکر کرنا چاہیے۔‘
وزیراعلیٰ بلوچستان نے یہ بھی کہا کہ اپوزیشن کے بہت سے لوگوں کا بلوچستان سے پرانا اور اچھا تعلق ہے، انہیں اپنی پارٹیوں کی اعلیٰ قیادت کو باور کرانا چاہیے کہ ایسے اقدامات سے چیزیں بہتری نہیں بلکہ خرابی کی طرف جائیں گی۔
’صادق سنجرانی کی صورت میں بلوچستان کو بہت عرصے بعد اعلیٰ فورم پر نمائندگی ملی۔ بلوچستان کی نمائندگی کا احترام کیا جانا چاہیے۔ اپوزیشن کو سیاست سے ہٹ کر اس معاملے کو دیکھنا چاہیے۔‘
جام کمال کے بقول لوگوں کو عموماً بلوچستان کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی اور اس طرح کے معاملات میں بلوچستان کے مفادات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔’میں پاکستان کی تمام جماعتوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے صوبے نے بہت مشکلات جھیلی ہیں، بلوچستان کے کارڈ کو بار بار اس طرح غلط طریقے سے نہ کھیلا جائے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ صادق سنجرانی اپنی ذمہ داریاں بڑے احسن انداز سے انجام دے رہے ہیں، انہوں نے ایک سال بہترین انداز سے ایوان کو چلایا اور کبھی کسی کو امتیازی سلوک کا احساس نہیں ہونے دیا۔ 

اپوزیشن سنجرانی کے خلاف اپنا متفقہ امیدوار لانا چاہتی ہے۔
اپوزیشن صادق سنجرانی کو ہٹا کر چیئرمین سینیٹ کے لیے اپنا متفقہ امیدوار لانا چاہتی ہے، تصویر: روئٹرز

بلوچستان کے فنڈز کے درست استعمال کی تحقیقات کیلئے پارلیمانی کمیشن کے سوال پر وزیراعلیٰ جام کمال کا کہنا تھا کہ اس بات پر سوچنا چاہیے کہ بلوچستان کا اتنا پیسہ کہاں گیا، اگر پیسہ درست خرچ ہوا ہے تو بھی سامنے آنا چاہیے، اگر اس میں کوئی کمی بیشی ہوئی ہے توبھی لوگوں کو پتہ ہونا چاہیے۔
خیال رہے کہ بدھ کو پاکستان میں حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں نے آل پارٹیز کانفرنس کے اعلامیے میں چیئرمین سینیٹ کو آئینی طریقے سے ہٹا کر اس عہدے کے لیے اپنا متفقہ امیدوار لانے کا اعلان کیا تھا۔ سیاسی پنڈتوں کا ماننا ہے کہ حزب اختلاف سینیٹ کو اپنا سیاسی مورچہ اس لیے بنانا چاہتی ہے تاکہ ایسا چیئرمین سینیٹ لایا جائے جو حکومت کے لیے نرم گوشہ نہ رکھتا ہو۔

شیئر: