Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’میں پاکستان کی شاہراہ دستور ہوں اور 2007 سے قید ہوں‘

2007 سے قبل میرے ملک کے شہریوں کو مجھ تک بلا روک ٹوک رسائی تھی۔ اے ایف پی فوٹو
پیارے پاکستانیو! میرا نام شاہراہ دستور ہے اور یہ نام اس وجہ سے رکھا گیا تھا کہ پاکستان کے دستور کے تحت وجود میں آنے والے بیشتر ادارے میرے ہم رکاب ہیں۔
میرے مرکز میں پاکستان کےعوام کے منتخب نمائندوں پرمشتمل اور اپنی بالادستی کی جنگ لڑتی پارلیمنٹ واقع ہے جس کا کام مفاد عامہ کے  لیے قانون سازی کرنا ہے اور اس کے پہلو میں ملک کی سب سے بڑی عدالت یعنی سپریم کورٹ ہے جس سے لوگ انصاف کی توقع کرتے ہیں۔
ملک کے انتظامی سربراہ یعنی وزیر اعظم کے دفتر کی بھی میں میزبان ہوں اورایوان صدر، وزیر اعظم ہاؤس، سول سیکرٹریٹ، وفاقی شرعی عدالت، پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پاکستان کے صدر دفتر بھی میرے ہی ساتھ ہیں۔
سنہ 2007 سے قبل میرے ملک کے شہریوں کو مجھ تک بلا روک ٹوک رسائی تھی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ابتدائی برسوں میں بھی پاکستانی شہری بغیر کسی جھجک کے میرے ساتھ سفر کرکے ایوان ہائے اقتدار میں آتے اور مختلف سرکاری دفاتر میں اپنے کام نمٹاتے تھے۔ میرے کنارے لگے لمبے گھنے درخت، جو میرے لیے گھنی زلفوں کے مترادف ہیں، کے سائے میں آرام کرتے تھے۔
قومی اور مذہبی تہواروں پر سرکاری عمارات کو جب برقی قمقموں سے سجایا جاتا تو میں بھی روشنی میں نہا جاتی اور جڑواں شہروں کے رہائشی ان روشنیوں کو دیکھنے کے لیے جوق در جوق میرے مہمان بنتے جنہیں دیکھ کر میں بھی پھولی نہ سماتی۔

 2008 سے 2019 تک تین جمہوری حکومتیں وجود میں آئیں، کسی نے بھی مجھے آزاد کرانے کا نہ سوچا۔ تصویر: اے ایف پی

لیکن آج میں دکھی دل کے ساتھ آپ سے مخاطب ہوں کیونکہ جس دستور کے نام پر مجھے نام دیا گیا اس کی بنیاد شخصی اور شہری آزادی ہے لیکن میں یعنی شاہراہ دستور 2007 سے قید ہوں، خاردار تاریں، سیمنٹ کے بلاکس اور ناکے میرا مقدر بنا دیے گئے ہیں۔
آپ کو یاد ہوگا کہ نو مارچ 2007 کو ایک فوجی آمر نے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو عہدے سے ہٹا کر ان کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر کیا جس کے نتیجے میں وکلا شاہراہ دستور یعنی میری سنگت میں جمع ہوئے۔ پھر جوڈیشل کونسل کی ہر سماعت پر وکلا اور سیاسی کارکن آنے لگے تو حکومت نے میرے وجود کوعلاقہ ممنوعہ قرار دے کرعوام کا داخلہ بند کر دیا اور مجھے غیر اعلانیہ طور پر قید تنہائی کا شکار کرنے کی کوشش کی گئی۔
وکلا اور سیاسی جماعتوں کی جدوجہد جاری رہی اور ہر سماعت پر رونق لگتی رہی۔ جوڈیشل کمیشن نے ریفرنس کو مسترد کر دیا تو کچھ دنوں کے لیے میں واقعی تنہا سی ہو گئی لیکن تین نومبر 2007 کو جب دوبارہ ایمرجنسی لگی تو کالے کوٹ اور رنگ برنگے جھنڈے تھامے لوگ ایک بارپھرجمع ہونے لگے لیکن اس دفعہ مناظر تکلیف دہ تھے کہ آئے روز پولیس لاٹھی چارج کرتی، آنسو گیس برساتی اور مجھے اپنے مہمانوں کو زخمی حالت میں دیکھنا پڑتا۔  

تین نومبر 2007 کو جب دوبارہ ایمرجنسی لگی تو کالےکوٹ اور رنگ برنگے جھنڈے تھامے لوگ ایک بارپھرجمع ہونے لگے

اعتزاز احسن، علی احمد کرد اور متعدد صحافیوں پر ہونے والے تشدد کو میں کیسے بھول سکتی ہوں۔ سنہ 2014 میں میرا دل یعنی ڈی چوک کئی ماہ تک پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے دھرنوں کا مرکز بنا رہا۔ وہ دھرنے شاید ان کے لیے تو خوشگوار یادیں رکھتے ہوں لیکن میرے لیے ان میں کچھ بھی خوشگوار نہ تھا۔
سنہ 2008 سے 2019 تک تین جمہوری حکومتیں وجود میں آئیں لیکن کسی نے بھی مجھے آزاد کرانے کا نہ سوچا۔ اگر کسی نے بات کی بھی تو سرکاری بابوئوں نے انہیں سکیورٹی خدشات سے ڈرا کرمیری قید میں اضافہ کردیا۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے میرے پڑوس جناح ایونیو سے آنے والا راستہ کھولا تو حفاظتی نگہبانوں نے بلاکس کی جگہ آہنی گیٹ کھڑا کر دیا جسے جب دل چاہے بند کر دیا جاتا ہے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں بے جان سڑک اتنی جذباتی اور دکھی کیسے ہو سکتی ہوں تو یقین کریں یہ جذباتی پن یک طرفہ نہیں ہے۔ میرے ارد گرد موجود دفاتر میں کام کرنے والے سرکاری ملازمین بھی ان پابندیوں پر بہت دکھی ہیں۔

سنہ 2014 میں میرا دل یعنی ڈی چوک کئی ماہ تک پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے دھرنوں کا مرکز بنا رہا

وہ کہتے ہیں کہ جب حالات نے پلٹا کھایا اور مجھے سرخ قطعہ (ریڈ زون) قراردیا گیا تو انہیں بھی اپنے دفاتر آنے جانے میں بہت مشکلات پیش آنے لگیں۔ شاہراہ دستور کو شاہراہ سیاست میں بدل دیا گیا جسے دیکھ کر دل دکھتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اپنے دفتر جاتے ہوئے جن رکاوٹوں سے گزرنا پڑتا ہے اس سے عوامی مشکلات کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔
صرف سرکاری ملازمین ہی نہیں پارلیمان میں آنے والےارکان بھی میری آزادی میں کردارادا نہیں کرسکے۔ یوں تو سبھی کے دل اس بات پردکھتے ہیں لیکن سینیٹر نزہت صادق  میری گھٹن پر کچھ زیادہ ہی پریشان ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اب وقت آ گیا ہے کہ شاہراہ دستور کو بھی سانس لینے کی آزادی دی جائے، اس کا اصلی تشخص بحال کیا جائے۔ دستور کی بالادستی کی بات کرنے والے معاشرے میں دستور نام کی شاہراہ کو بھی آزاد کیا جانا چاہیے۔ حفاظتی اقدامات درست لیکن عوامی جذبات اور شاہراہ دستور کی قدر بھی کرنا ہوگی۔
دو جولائی کو سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس جس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت دیگر ججز کے خلاف ریفرنس کی سماعت ہوگی، وکلا نے حسب روایت کے اس موقع پر احتجاج کا فیصلہ کیا ہے۔ ابھی تک تو یہ احتجاج سپریم کورٹ کے احاطے میں ہی ہو رہا ہے لیکن میں سہم جاتی ہوں کہ کہیں وکلا باہر نکل آئے، سیاسی کارکن ان کے ساتھ ہوگئے اور مہنگائی کے ستائے عوام نے بھی اسے موقع غنیمت جانا اور ساتھ ہو لیے جبکہ وزیر داخلہ سڑکوں پر آنے والوں کی ٹانگیں توڑ دینے کی دھمکی دے چکے ہیں تو پھر کیا ہوگا؟ یقینا میری قید مزید طویل اور کرب بڑھ جائے گا۔

شیئر: