Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حمزہ نامہ: سہیل وڑائچ کا کالم

اگر ن لیگ کو مستقبل قریب میں کوئی ڈیل یا ڈھیل ملی تو اس کا فائدہ حمزہ اور ان کے والد شہباز شریف کو ہو گا۔
داستان امیر حمزہ یا حمزہ نامہ مشہور دیو مالائی کہانی ہے جس کے ہیرو، جنوں، بھوتوں اور بادشاہوں سے لڑتے جھگڑتے کامیابیوں کے جھنڈے گاڑتے ہیں۔ پاکستانی سیاست کے حمزہ شہباز شریف اور داستان امیر حمزہ کے ہیرو میں نام کی مماثلت کے علاوہ کوئی قدر مشترک نہیں ہے۔
رومانوی طبیعت رکھنے والے حمزہ شہباز شریف دھیمے لہجے اور ٹھنڈی سیاست کے باوجود پس دیوار زنداں ہیں وہ قانونی اور سیاسی جنگ جیت کر فتح یاب ہوں گے یا پھردیو مالا کی کہانیوں کی طرح راستے کی بلاؤں کا شکار ہو جائیں گے۔
حمزہ شہباز شریف ہر لحاظ سے Love Triangle میں پھنسے نظر آتے ہیں۔ نفسیات کی اصطلاح کے مطابق بیک وقت دو محبتوں کو برقرار رکھنا تکونی محبت کہلاتا ہے۔ سیاست ہو یا نجی زندگی حمزہ شہباز تکونی دلدل میں دھنسے رہتے ہیں۔
ایک زمانہ وہ تھا کہ ہر کوئی کہتا تھا حمزہ اپنے تایا نواز شریف پر گیا ہے اور اپنے تایا کے بہت قریب ہے۔ دونوں میں محبت اور اعتماد اس حد تک تھا کہ صدر زرداری کے دور میں نواز شریف نے ایک انٹرویو میں اپنے بیٹوں یا بیٹی کی بجائے حمزہ شہباز شریف کا نام اپنے جانشین کے طور پر لیا تھا۔ مگر برا ہو تکونی محبت کے تقاضوں کا۔ پانامہ مقدمہ شروع ہوا تو حمزہ کا جھکاؤ تایا کی بجائے والد شہباز شریف کی طرف ہو گیا حمزہ اور شہباز شریف دونوں کا خیال تھا کہ راحیل شریف کو توسیع دے کر پانامہ سے چھٹکارا حاصل کر لیا جائے۔
دونوں اسٹیبلیشمنٹ سے مفاہمت کے حق میں تھے مگر اس دوران وزیر اعظم ہاؤس کی فضا بدل چکی تھی، مریم والد کے دفاع میں آگے بڑھ کر جارحانہ پوزیشن لے چکی تھی جوں جوں مریم کا رول بڑھا حمزہ پیچھے ہٹتے گئے۔
حمزہ اور ان کے والد مفاہمانہ کردار کے باوجود جب یکے بعد دیگرے خود بھی گرفتار ہوگئے تو ان کا مفاہمانہ بیانیہ بھی دم توڑ گیا۔

حمزہ شہباز رومانیت پسند سیاستدان ہیں خود گانا گاتے ہیں اور سریلی آواز پسند کرتے ہیں۔

حمزہ شہباز رومانیت پسند سیاستدان ہیں۔ خود گانا گاتے ہیں اور سریلی آواز پسند کرتے ہیں۔ نجی زندگی میں بھی Love Triangle یعنی محبت کی تکون میں گھرے ہوئے ہیں چونکہ وہ سیاست دان ہیں اس لیے ان کی نجی زندگی پر بات کرنے میں ہرج نہیں کیونکہ اس سے ان کی چھپی شخصیت کے کئی پہلو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
حمزہ، ماں اور باپ کے حوالے سے تکونی محبت کے امتحان سے گزرے ہیں۔ نو عمری سے نوجوانی تک گھر میں ان کا جھکاؤ اپنی والدہ نصرت شہباز کی طرف رہا تاہم والد کے ساتھ سیاسی بیانیہ میں یگانیت کے بعد سے اب شاید وہ دونوں ماں باپ کے درمیان جذباتی توازن قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
اسی تکونی محبت کا سب سے دلچسپ باب حمزہ شہباز کی دو بیویوں کا ہے۔ کرنل راس کی بیٹی اور پی ٹی آئی کے صوبائی وزیر مراد راس کی بہن مہر النسا سے حمزہ شہباز نے پسند کی شادی کی تاہم اس شادی میں والدین کی بھرپور رضامندی بھی شامل تھی۔ یاد رہے والدہ اور خاندان نے لاہور کی کشمیری اشرافیہ کے ہاں حمزہ کی  ڈاکٹر رابعہ سے ان کی پہلی اور خاندانی شادی کی تھی۔
حمزہ شہباز اس تکونی محبت کی پیچیدگیوں میں کافی عرصہ سے مبتلا ہیں وہ زیادہ تر وقت اپنی دوسری بیوی مہر النسا کے ساتھ گزارتے رہے جبکہ پہلی بیوی ڈاکٹر رابعہ زیادہ تر بیرون ملک مقیم رہیں لیکن تکونی محبت کی ستم ظریفی دیکھیں کہ حمزہ شہباز کو سالوں کے بعد اولاد کی جو خوش خبری ملی ہے وہ ڈاکٹر رابعہ کی طرف سے ملی ہے۔ نومولود بیٹی سماویہ کو پیدا ہوتے ہی ہارٹ سرجری سے گزرنا پڑا تاہم اب ماں اور بچی دونوں خوش و خرم اور صحت مند ہیں۔ حمزہ پہلی اولاد کی پیدائش پر بہت خوش تھے کہ گرفتاری سے گزرنا پڑا۔

 جوں جوں مریم کا رول بڑھا حمزہ پیچھے ہٹتے گئے۔

حمزہ شہباز کی تکونی محبت کی آزمائشیں سیاست میں بھی دیو مالائی چڑیلوں کی طرح منہ کھولے کھڑی ہیں وہ اسٹیبلیشمنٹ اور فوج سے بنا کر رکھنا چاہتے ہیں جبکہ دوسری طرف وہ گرفتارہیں اور ان کی جماعت اور مریم نواز دونوں احتجاج کے موڈ میں ہیںْ۔ حمزہ اس دو راہے میں کس راہ کی طرف جاتے ہیں۔
بظاہرمقتدرہ سے ان کی تکونی محبت کام نہیں آئی اور مفاہمت کی بات کرنے کے باوجود وہ مزاحمتی کیمپ میں رہنے پر مجبور ہیں۔
چند روز قبل پنجاب اسمبلی چیمبرز میں حمزہ شہبازسے ملاقات ہوئی۔ حمزہ پر امید تھے کہ نومبر کے بعد سے حالات بدلیں گے۔ ن لیگ کا خیال یہ ہے کہ اگست ستمبر میں تاجر ٹیکسوں کے خلاف باہر نکلیں گے جبکہ عوام مہنگائی سے تنگ آکر احتجاج کریں گے۔ ن لیگ کی قیادت کا تجزیہ یہ ہے کہ نومبر کے بعد سے تحریک انصاف کا مشکل ترین وقت شروع ہو گا۔
حالات نے بدلنا ہے سو بدلیں گے مگر ن کی اندرونی سیاست میں حمزہ اور مریم کا تقابل آج بھی کیا جا رہا ہے حمزہ اب بھی شہباز شریف کے بیانیے کے ساتھ ہیں جبکہ مریم اپنے والد کے جارحانہ بیانیے کو آگے بڑھا رہی ہیں۔
اگر تو ن لیگ کو مستقبل قریب میں کوئی ڈیل یا ڈھیل ملی تو اس کا فائدہ حمزہ اور ان کے والد شہباز شریف کو ہو گا۔
دوسری طرف اگر لمبی جدو جہد اور جارحانہ رویوں سے حکومت گر گئی تو پھر زیادہ سیاسی فائدہ مریم نواز کو ہو گا۔ دیکھنا یہ ہو گا کہ آنے والے دنوں میں حالات کے تیور کیا ہوں گے؟ کیا مزید فارورڈ بلاک بنیں گے یا پھر حکومت پر بھی پریشر پڑے گا؟

شیئر: