Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’جج ارشد ملک کو کام کرنے سے روک دیا گیا‘

وزارت قانون نے جج ارشد ملک کی خدمات احتساب عدالت کے لیے عارضی طور پر مستعار لی تھیں۔
وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا ہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نمبر 2 کے جج ارشد ملک کو کام کرنے سے روک دیا  دیا گیا ہے اور انہیں اپنے ادارے لاہور ہائی کورٹ رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ ویڈیو بنانے کے معاملے میں جج ارشد ملک بھی شکایت درج کرا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس کا فیصلہ اس وقت تک کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا جب تک کہ اسلام آباد ہائی کورٹ یہ فیصلہ نہ کر لے کہ جج ارشد ملک نے کیس کا فیصلہ دباؤ کے تحت کیا تھا۔

جج ارشد ملک پنجاب عدلیہ کے ماتحت ہیں اور وزارت قانون نے ان کی خدمات  احتساب عدالت کے لیے عارضی طور پر مستعار لی تھیں

وفاقی وزیر قانون نے پریس کانفرنس میں کہا کہ نواز شریف آج ہی منی ٹریل دے کر آج ہی رہا ہو سکتے ہیں اور کسی کو عدالتوں پر دباؤ ڈالنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
پریس کانفرنس میں موجود وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا کہ جج ارشد کے بیان حلفی کے مطابق انہیں 10 کروڑ روپے کی پیش کش بھی کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ یہ رقم انہیں کسی بھی ملک میں پہنچائی جا سکتی ہے۔
شہزاد اکبر کے مطابق جج نے بیان حلفی میں کہا کہ دوران سماعت ناصر جنجوعہ نے انہیں 20 ملین یورو کی پیش کش کی اور ارشد ملک نے کہا کہ ناصر بٹ نے انہیں ملتان کی ایک ویڈیو دکھا کر بلیک میل کیا۔
اس سے پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو موجودہ عہدے سے ہٹانے کے لیے وفاقی وزارت قانون و انصاف کو خط لکھا تھا۔
جمعہ کو اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک ترجمان نے خط کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ رجسٹرار نے خط اسلام آباد ہائی کورٹ کے  قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق کی ہدایت پر لکھا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے ترجمان نے مزید بتایا کہ قائم مقام چیف جسٹس نے رجسٹرار کو ہدایت کی ہے کہ ارشد ملک کا خط، ان کا بیان حلفی اور ان کی جانب سے جاری پریس ریلیز نواز شریف کی فلیگ شپ اور العزیزیہ کیسز میں دائر کی گئی اپیلوں کے ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔
ترجمان نے کہا کہ جج ارشد ملک پنجاب عدلیہ کے ماتحت ہیں اور وزارت قانون نے ان کی خدمات  احتساب عدالت کے لیے عارضی طور پر مستعار لی تھیں۔
احتساب عدالت اسلام آباد ہائی کورٹ کے براہ راست ماتحت تو نہیں تاہم ان کی نگرانی اسلام آباد ہائی کورٹ ہی کرتی ہے اس لیے ترجمان کے مطابق جج ارشد ملک کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائمقام چیف جسٹس کا اقدام عدالتی فیصلہ نہیں بلکہ انتظامی اقدام ہے۔

رجسٹرار نے خط اسلام آباد ہائی کورٹ کے  قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق کی ہدایت پر لکھا ہے۔

اس سے قبل ارشد ملک نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو ایک خط لکھا تھا اور بیان حلفی بھی جمع کروایا تھا جس میں انہوں نے اپنے حوالے سے مسلم لیگ نواز کی طرف سے چلائی جانے والی ویڈیو کو جعلی قرار دیا تھا۔
اکثر مبصرین کا خیال ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس اعلان کا بین سطور مطلب یہی ہے کی ارشد ملک کو احتساب عدالت کے جج کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے تاہم سرکاری سطح ہر ایسا نہیں کہا گیا۔
دوسری جانب پاکسان مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کے فیصلے سے ثابت ہو گیا کہ ویڈیو اصلی ہے۔
انھوں  نے مقامی ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اب نواز شریف کو جیل میں رکھنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہا اور ان کے خلاف فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے اور فوری طور پر رہا کیا جائے۔
خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے مسلم لیگ ن کی سینئر قیادت کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس کے دوران پارٹی کی نائب صدر مریم نواز نے نوازشریف کو العزیزیہ ریفرنس کیس میں سزا سنانے والے نیب عدالت کے جج اور نوازشریف کے قریبی ساتھی ناصر بٹ کی خفیہ کیمرے سے بنی ایک مبینہ ویڈیو دکھائی تھی۔ 
مریم نواز نے الزام لگایا تھا ’سزا دینے والا جج خود بول اٹھا ہے کہ نواز شریف کے ساتھ زیادتی ہوئی اور فیصلہ کیا نہیں صرف سنایا گیا ہے۔‘
مریم نواز کے مبینہ الزامات کے جواب  میں  وزیر اعظم عمران خان نے پارٹی رہنماؤں اور حکومتی ترجمانوں کے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا ’ اس معاملے کی تحقیقات ہونا ضروری ہے تاہم اگر حکومت نے تحقیقات کروائیں تو اپوزیشن اس پر بھی تنقید کرے گی، ہم چاہتے ہیں کہ اس معاملے پر عدلیہ نوٹس لے۔‘
دوسری جانب احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے پاکستان مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز کی جانب سے دکھائی گئی ویڈیوز کو جعلی قرار دیا تھا۔ 
ان کا کہنا تھا ’مریم صفدر صاحبہ کی پریس کانفرنس میں دکھائی جانے والی ویڈیوز نہ صرف حقائق کے برعکس ہیں بلکہ ان میں مختلف مواقع اور موضوعات پر کی جانے والی گفتگو کو توڑ مروڑ کر سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کرنے کی مذموم کوشش کی گئی ہے۔‘ 

شیئر: