Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’زلزلہ متاثرین کی امدادی رقم میں چوری کی تردید‘

برطانوی اخبار نے شہباز شریف پر سنگین الزامات لگائے تھے۔ فوٹو: اے ایف پی
برطانیہ کے بین الاقوامی ترقی کے ادارے (ڈیفڈ) نے ڈیلی میل کی اس رپورٹ کی تردید کی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ صوبہ پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف کے خاندان نے زلزلہ متاثرین کے لیے دی جانے والی برطانوی امداد میں خرد برد کیا۔
یہ خبر پاکستان کے لگ بھگ تمام میڈیا چینلز کی ہیڈ لائنز کی زینت بن رہی ہے تاہم برطانیہ کے بین الاقوامی ترقی کے ادارے (ڈیفڈ) نے ڈیلی میل کی اس رپورٹ کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’2005 کے زلزلے کے بعد برطانیہ کی جانب سے حکومتی ادارے ’ارتھ کوئک ری کنسٹرکشن اینڈ ری ہیبلیٹیشن اتھارٹی‘ (ایرا) کو سکولوں کی تعمیر کے لیے امداد دی گئی جو تعمیر ہوئے اور ادارے کی جانب سے ان کا آڈٹ بھی کیا گیا۔‘
ڈیفڈ کے ترجمان کے مطابق ’برطانیہ کی جانب سے پاکستان کو زلزلہ متاثرین کے لیے مالی امداد کام مکمل کرنے پر دی جاتی تھی یعنی ہم نے پاکستان کو اس وقت ہی پیسے دیے جب پاکستان نے منصوبے کے مطابق طے شدہ کام کیے۔‘
ادارے کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’برطانیہ کے ٹیکس دہندگان نے تباہ کن زلزلے کے غیر محفوظ متاثرین کی مدد کرکے بالکل وہی مقصد حاصل کیا جس کے لیے پیسے دیے گئے تھے۔ ہمیں یقین ہے کہ ہمارے نگرانی کے مضبوط نظام نے برطانیہ کے ٹیکس دہندگان کو دھوکہ دہی سے بچایا ہے۔‘

برطانیہ کی جانب سے پاکستان کو زلزلہ متاثرین کے لیے مالی امداد کام مکمل کرنے پر دی جاتی تھی۔ فوٹو: ڈیفڈ

ترجمان کے مطابق ’ڈیلی میل‘ نے اپنے مضمون کی ہیڈ لائن کے مطابق مضمون میں پیسوں کی چوری کے حوالے سے ناکافی ثبوت پیش کیے ہیں۔
خیال رہے کہ اخبار کے مضمون کی ہیڈ لائن تھی کہ ’کیا برطانیہ کی غیر ملکی امداد میں پوسٹر بوائے کے طور پر استعمال ہونے والے پاکستانی سیاستدان کے خاندان نے زلزلہ متاثرین کے لیے دی جانے والی امدادی رقم میں سے چوری کی؟
ڈیفڈ نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ اخبار کے مضمون میں لکھا گیا کہ ’پاکستان میں محقیقن کو یقین ہے کہ شریف خاندان کی طرف سے چوری کی گئی رقم کا ’کچھ حصہ‘ ڈیفڈ کی امداد سے آیا تاہم اس حوالے سے کوئی خاطر خواہ ثبوت پیش نہیں کیے گئے کہ یہ چوری زلزلہ زدگان کے لیے دی گئی امداد میں سے ہوئی۔‘  
بیان کے مطابق ’ڈیلی میل‘ نے اپنے مضمون میں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے قائم کردہ اثاثوں کی بحالی کے یونٹ کے سربراہ شہزاد اکبر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’ایسا لگتا ہے کہ شاید کچھ رقم زلزلہ زدگان کے لیے دی جانے والی رقم سے چوری کی گئی ہے۔ تاہم اس بارے بھی کوئی خاطر خواہ ثبوت فراہم نہیں کیے گئے کہ کرپشن زلزلہ زدگان کے لیے دی گئی امداد میں سے ہوئی۔‘
ترجمان کے مطابق ڈیفڈ نے اتوار کے روز ’ڈیلی میل‘ کو پاکستان میں اپنے کام کے پس منظر پر بھی آگاہ کیا ہے۔ ’ہم نے اخبار کو بتایا کہ ڈیفڈ برطانیہ اور پاکستان میں لاکھوں لوگوں کو غربت کی لکیر سے اوپر لانے کے ساتھ ساتھ ان کے استحکام اور سکیورٹی کو بہتر بنانے کے لیے کیسے کام کرتا ہے۔‘
ادارے کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’برطانیہ نے 2011 سے اب تک پاکستان میں قدرتی آفات اور تنازعات سے متاثر ہونے والے 80 لاکھ سے زائد لوگوں کو امداد فراہم کی ہے۔‘

برطانیہ نے پاکستان میں زلزلہ زدگان کی بحالی کے لیے امداد دی تھی۔ فوٹو: اے ایف پی

خیال رہے کہ ’ڈیلی میل‘ نے اپنی خبر میں دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان کو دی گئی امداد میں شہباز شریف دور میں ڈیفڈ نے لگ بھگ 50 کروڑ پونڈ پنجاب کو دیے۔
ڈیفڈ کی تردید سامنے آنے کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے بھی پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈیلی میل کی خبر کو ’بے بنیاد اور من گھڑت‘ قرار دیا ہے۔
انھوں نے الزام لگایا کہ ’مضمون لکھنے والے صحافی ڈیوڈ روز نے بنی گالہ میں عمران خان سے ملاقات کی اور یہ خبر وزیر اعظم عمران کے اثاثوں کی بحالی کے یونٹ کے سربراہ شہزاد اکبر نے پلانٹ کروائی۔‘
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’جس وقت کی بات اس مضمون میں کی جا رہی ہے اس وقت شہباز شریف ملک سے باہر تھے۔‘
اس سے قبل وزیر اعظم عمران خان کی مشیر برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ’ڈیلی میل اخبار کا اس حکومت اور سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، لہذا اس مضمون کے پیچھے چھپ کر آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ حکومتی ایجنڈا ہے یا حکومت کی انتقامی کارروائی ہے۔‘
انہوں نے اخبار کے مضمون کا حوالہ دیتے ہوئے مسلم لیگ ن کے رہنماؤں پر تنقید کی اور مریم نواز کو مخاطب کر کے کہا کہ ’یہ آپ کا اصل چہرہ ہے۔‘
ادھر شہباز شریف کے مطابق انھوں نے ’ڈیلی میل کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا فیصلہ کیا ہے۔ خود ساختہ اور گمراہ کن خبر عمران خان اور شہزاد اکبر کی ایما پر چھاپی گئی۔ ہم ان دونوں افراد کے خلاف بھی قانونی چارہ جوئی کریں گے۔‘

شیئر: