Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاک امریکہ تعلقات: دس ہزار ٹن گندم اور جیکی کے قہقہے

پاکستان اور امریکہ کے تعلقات سکیورٹی اور فوجی سے لے کر معاشی قربت اورمشکل سفارت کاری تک کے مراحل سے گزرے ہیں۔
ان تعلقات پر پبلک ڈپلومیسی کا بھی سایہ رہا۔ امریکہ کو ایک ہی فکر تھی کہ برصغیرکے دو نوآزاد ممالک کمیونزم کے بڑھتے ہوئے سائے میں نہ چلے جائیں۔ لہٰذا پبلک ڈپلومیسی پرعمل کیا گیا۔ یہ کام پاکستان سے بشیر ساربان اورامریکہ سے نائب صدر لنڈن جانسن اور فرسٹ لیڈی جیکولین کے حصے میں آیا۔
چند برس پہلے پاکستان کے وزیراعظم محمد علی بوگرا کچھ زیادہ ہی خیرسگالی کا مظاہرہ کرچکے تھے۔ ہوا یوں کہ پچاس کے عشرے کے ابتدائی برسوں کے دوران پاکستان میں غذائی قلت کی صورتحال پیدا ہوگئی۔
اگرچہ قیام پاکستان کے بعد چند سال تک پاکستان اپنی ضروریات سے چار لاکھ ٹن گندم زائد پیدا کررہا تھا اور اضافی گندم جاپان، جرمنی کو برآمد کررہا تھا لیکن 1952 میں گندم کی پیداوارمیں کمی واقع ہوگئی۔
اس کی وجہ گندم کے بجائے کپاس کی زیادہ کاشت اور پانی کی قلت تھی۔ امریکی وزارت خارجہ اور سفارت خانے کے درمیان ہونے والی خط وکتابت (جو ابھی ڈی کلاسیفائیڈ ہوچکی ہے) کے مطابق ’پاکستان نے تین لاکھ ٹن گندم کا مطالبہ کیا ہے جس کی لاگت 15 ملین ڈالر ہوگی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ڈیڑھ لاکھ ٹن گندم کافی ہوگی کیونکہ یہ گندم پہنچنے کے بعد نجی ذخائر سے سٹاک بھی مارکیٹ میں آ جائے گا۔ یہ سوال باقی تھا کہ یہ رقم بطور قرضہ دی جائے یا گرانٹ؟‘

گورنر جنرل ملک غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین کابینہ کو برطرف کیا اور امریکہ میں متعین پاکستانی سفیر محمد علی بوگرہ کو وزیراعظم مقرر کردیا۔ فوٹو: ڈان

امریکہ نے پہلی مرتبہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کا مشورہ بھی دیا۔ امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری بائروڈ نے سیکرٹری خارجہ کو خط لکھا ’پاکستان کو ساڑھے سات لاکھ ٹن گندم کی ضرورت ہے جس کی مالیت پچہتر ملین ڈالر ہوگی۔ پاکستان آئی ایم ایف سے پچیس ملین ڈالرقرضہ لے سکتا ہے۔‘
جون 1952 میں امریکی سفیر نے واشنگٹن کو بتایا ’روس نے پاکستان کو چار لاکھ ٹن گندم دینے اور بدلے میں کپاس اور پٹ سن لینے کی پیشکش کی ہے۔‘
امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری بائروڈ نے لکھا ’پاکستان کی مدد کرنے کی بڑی سیاسی اہمیت ہے، پاکستان مشرق وسطیٰ کے دفاع میں اچھا کردارادا کرسکتا ہے۔ محل وقوع کے لحاظ سے یہ ملک آزاد ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے درمیان واقع ہے، اگر حکومت خوراک کے بحران میں مناسب قدم اٹھانے میں ناکام ہو جاتی ہے تو اندرونی خلفشار بڑھے گا جس سے امریکی مفادات خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ اگر امریکہ نے گندم نہ دی تو پاکستان روس سے گندم حاصل کرلے گا اس صورت میں خطے میں ہماری ساکھ کو دھچکا پہنچے گا۔‘
امریکی جنوبی ایشیا آفس کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی وزیر خارجہ سر ظفراللہ خان نے بتایا کہ ملک میں کم گندم کی پیداوار کی بڑی وجہ بھارت کی طرف سے پاکستان کو پانی کی کم فراہمی ہے۔
17 اپریل کو گورنر جنرل ملک غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین کی کابینہ کو برطرف کیا اوراسی رات امریکہ میں متعین پاکستانی سفیر محمد علی بوگرہ کو وزیراعظم مقرر کردیا، وہ ان دنوں پاکستان میں تھے۔ 
امریکہ نے تعلقات کو پرسنلائز کرنے کی کوشش کی۔ پہلا اشارہ امریکی سیکرٹری خارجہ جان فوسٹر ڈیولز کی زراعت و جنگلات سے متعلق کمیٹی کے سامنے پاکستان کو گندم کی فراہمی کے حق میں دلائل سے ملتا ہے۔ ’کراچی میں مجھے نہایت ہی شاندار گارڈ آف آنر پیش کیا تھا۔‘

محمد علی بوگرا کے لیے مشہورتھا کہ وہ امریکی آشیرواد سے وزیراعظم بنے تھے۔ فوٹو: وائٹ ہاؤس

محمد علی بوگرا کے لیے مشہورتھا کہ وہ امریکی آشیرواد سے وزیراعظم بنے تھے۔ امریکہ نے ان پر شفقت کا ہاتھ رکھا۔ پاکستان نے خراب ہوتی غذائی صورت حال کے پیش نظر امریکہ سے امداد کی درخواست کی تھی۔ جواباً امریکی جہاز اینکریج وکٹری 21 جولائی کو ساڑھے دس ہزار ٹن امریکی گندم بطور تحفہ  لے کر کراچی پہنچ گیا۔
پاکستانی حکومت نے اس اقدام کا والہانہ خیرمقدم کیا۔ جہاز کو خوش آمدید کہنے کے لیے وزیراعظم بوگرہ خود بندرگاہ پہنچے۔
خیرمقدمی تقریر میں انہوں نے امریکی اقدام کو سراہا لیکن اسی پر اکتفا نہیں کیا، امریکہ کو خوش کرنے کے لیے انہوں نے جذباتی ٹچ والی ایک ترکیب نکالی۔ گندم جن اونٹ گاڑیوں کے ذریعے شہرلائی جا رہی تھی، انہوں نے ہر اونٹ کے گلے میں ایک تختی لٹکوادی۔ جس پر انگریزی میں لکھا تھا ’تھینک یو امریکہ‘۔
 تعلقات کو مزید عوامی سطح پر 1961 میں امریکی نائب صدر لنڈن جانسن کے دورہ پاکستان کے دوران لایا گیا۔
جانسن نے ایک اونٹ گاڑی والے بشیر ساربان سے ہاتھ ملایا اوربے تکلف انداز میں کہا ’تم کبھی امریکہ آؤ نا‘ یہ عام گاڑی بان کو امریکہ آنے کی دعوت تھی۔ چند ماہ بعد بشیرساربان کو واقعی امریکی حکومت کی جانب سے دورے پربلا لیا گیا۔ عالمی میڈیا میں اس کو بہت پذیرائی ملی۔

امریکی نائب صدر لنڈن جانسن نے پاکستانی اونٹ بان بشیر ساربان سے ہاتھ ملایا اور انہیں امریکہ آنے کی دعوت دی۔ فوٹو: ایکسپریس ٹریبیون

ساڑھے دس ہزار ٹن گندم کے تحفے سے شروع ہونے والا معاملہ وقت کے ساتھ آگے بڑھتا گیا۔ 1954 میں دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی معاہدہ ہوا، بعد میں سینکڑوں فوجی افسران نے امریکہ میں تربیت حاصل کی۔
امریکہ میں پاکستان کے فوجیوں کو فوجی ترکیبوں کے ساتھ ساتھ لیڈرشپ، مینجمنٹ اور معاشی نظریوں کے بارے میں بھی تربیت دی جاتی رہی۔ بعدازاں پاکستان امریکی فوجی حکمت عملی کا بھی حصہ بنا۔
1962 میں امریکی فرسٹ لیڈی جیکولین کینیڈی نے کراچی سے لاہور، راولپنڈی اور طورخم تک دورہ کیا۔ تعلقات کی وسعت اور گہرائی میں ذاتی ربط اورجذباتیت کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔

1962 میں امریکی فرسٹ لیڈی جیکولین کینیڈی نے پاکستان کا دورہ کیا۔ فوٹو: ریڈیو فری یورپ

جیکی کینیڈی کے دورہ پاکستان نے سیلبرٹی ڈپلومیسی اور پبلک ڈپلومیسی کو نئی جہت دی۔ ان کے استقبال کوعوامی بنایا گیا۔ یہ دورہ ذاتی اور پکنک نما تھا لیکن اس کے پیچھے سفارتی مقاصد تھے۔
جیکولین کراچی آئیں تو انہوں نے بھی گاڑی بان سے ملاقات کی اوراونٹ پر سواری کی فرمائش کر ڈالی۔ ایک سال پہلے امریکی صدر لنڈن جانسن بشیرساربان سے ملے تھے۔

جیکولین کراچی آئیں تو انہوں نے بھی اونٹ بان بشیر ساربان سے ملاقات کی اوراونٹ پر سواری کی فرمائش کر ڈالی۔ فوٹو: ریڈیو فری یورپ

جیکولین کینیڈی کی حفاظت پر مامور امریکی خفیہ ایجنٹ کلنٹ ہل نے اپنی کتاب ’میں اور مسز کینیڈی‘ میں ان کے پاکستان کے دورے، خاص طور پراونٹ پر سواری کا واقعہ تفصیل سے لکھا ہے۔
ان کے مطابق ’جیکی اور ان کی بہن کی طرف سے اچانک اونٹ کی سواری کی فرمائش پر پاکستانی حکام اور گاڑی بان بشیر پریشان ہو گئے تھے، پریشانی میں اس وجہ سے بھی اضافہ ہوگیا کہ دونوں مہمان خواتین گھٹنوں سے اوپر تک سکرٹ پہنے ہوئے تھیں جو اونٹ پر سواری کے لئے قطعی نامناسب تھا۔
 تاہم انہیں ایک رخ پربیٹھا کران کی فرمائش پوری کی گئی۔ اونٹ پر سواری کے دوران جیکی اپنے مخصوص سٹائل میں زورسے ہنس رہی تھیں۔ اس دوران دائیں بائیں پاکستانی افسران کھڑے تھے تاکہ کہ مہمان خواتین کو گرنے سے بچایا جا سکے۔

شیئر: