Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سینکڑوں بچے جیلوں میں انصاف کے منتظر

پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق کم سن ملزموں سے متعلق قوانین پر عملدرآمد کی پیچیدگیوں کے باعث اب بھی نابالغ افراد کو سخت سزائیں دینے کا سلسلہ جاری ہے اورجیلوں میں سزائے موت سمیت سخت سزاؤں کے منتظر سینکڑوں ایسے قیدی موجود ہیں جو کم عمر ہیں یا  پھرجرم کرتے وقت بچے تھے۔
قیدیوں سے متعلق کام کرنے والے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں ایسے افراد کی تعداد کے متعلق ابہام پایا جاتا ہے لیکن مجموعی اندازوں کے مطابق ملک بھر کی جیلوں میں ایک ہزار کے قریب ایسے قیدی موجود ہیں جن سے جرائم بچپنے میں سرزد ہوئے۔
جسٹس پروجیکٹ پاکستان کے مطابق اس وقت ملک کی تمام جیلوں میں 1225 قیدی بچے ہیں یا پھر جرم کرتے وقت ان کا شمار بچوں میں ہوتا تھا جبکہ 2014 کے بعد سے اب تک کم از کم چھ ایسے افراد کو سزائے موت دی گئی ہے جو جرم کرتے وقت بالغ نہیں تھے۔
مختلف جیلوں میں کم از کم تین ایسے افراد اب بھی موجود ہیں جن کے بارے میں تسلیم کیا جا چکا ہے کہ انہوں نے بلوغت تک پہنچنے سے پہلے جرم کیا تھا لیکن اس کے باوجود ان کو سزائے موت سنائی گئی ہے اور وہ اب اس سزا پر عملدرآمد کے منتظر ہیں۔

معروف وکیل اور سماجی رہنما حنا جیلانی کے مطابق ابھی پنجاب میں صرف لاہور میں ’بچوں کی عدالت‘ قائم کی گئی ہے

انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2004 سے 2019 کے دوران ایسے پانچ افراد کو سزائے موت سنائی گئی جبکہ ایک کو پھانسی دی گئی جس سے بچپن میں جرم کا ارتکاب ہوا تھا۔    
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے سنہ 2015 میں جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق اس وقت پاکستان میں  8000 سزائے موت کے قیدیوں میں سے سینکڑوں ملزمان کے بارے میں امکانات تھے کہ انہوں نے جرائم کا ارتکاب بچپن میں کیا تھا۔   
تاہم حکومت پاکستان اس بارے میں کوئی بھی معلومات فراہم کرنے سے احتراز برتتی ہے اور وفاقی وزارت داخلہ کی ایک ترجمان نے ’اردونیوز‘ کے استفسار پر بتایا کہ اس نوعیت کی معلومات عوام کے لیے دستیاب نہیں کی جا سکتیں۔
پاکستان دنیا کے ان 160 ممالک میں شامل ہے جنہوں نے اقوام متحدہ کے کنونشنز کے تحت 18 سال سے کم عمر میں جرائم کرنے والے افراد کو سزائے موت نہ دینے کے بارے میں قانون سازی کر رکھی ہے۔ 
پاکستان نے اس سلسلے میں تازہ ترین قانون گذشتہ سال 2018 میں لاگو کیا تھا جس کے تحت نہ صرف ایسے افراد کو سزائے موت نہیں دی جا سکتی جن کی عمر جرم کرتے وقت 18 سال سے کم ہو بلکہ ان کے مقدمات بھی خصوصی طورپرقائم کی گئی ’بچوں کی عدالتوں‘ میں ہی چلائے جا سکتے ہیں۔
لیکن انسانی حقوق کے کارکنوں اور قانونی ماہرین کے مطابق اس قانون کے نفاذ میں شدید پیچیدگیاں حائل ہیں کیونکہ نہ تو ملک بھر میں ’بچوں کی عدالتیں‘ تشکیل پا سکی ہیں اور نہ ہی گرفتار ملزمان کی عمر کی تشخیص کے لئے کوئی خاطر خواہ اقدامات کیے جا سکے ہیں۔
معروف وکیل اور سماجی رہنما حنا جیلانی کے مطابق ابھی پنجاب میں صرف لاہورمیں ’بچوں کی عدالت‘ قائم کی گئی ہے۔
انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جوونائیل جسٹس سسٹم ایکٹ جو ابھی حال ہی میں پاس کیا گیا ہے کے ابھی تک ضوابط ہی نہیں بنے۔ اس قانون کے تحت ضوابط بننا ضروری ہیں کہ جیلوں میں بچوں کے ساتھ کیسا رویہ رکھا جائے گا۔ ان کی عمر کیسے متعین ہو گی۔‘ 
حنا جیلانی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ملزمان کی عمر متعین کرنے کے بارے میں کوئی آگاہی نہیں ہے اور خصوصاً کم عمر افراد کے مقدمات میں اس کو لازمی قرار دیا جانا چاہیے۔

حنا جیلانی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ملزمان کی عمر متعین کرنے کے بارے میں کوئی آگاہی نہیں ہے

جسٹس پروجیکٹ پاکستان کی سربراہ سارہ بلال کا کہنا ہے کہ 18 سال سے کم عمر ملزمان کے ساتھ جیلوں میں بالغوں کی طرح کا سلوک نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے مطابق تاریخ پیدائش کا اندراج نہ ہونے کی وجہ سے عمر کا درست تعین نہ ہونا کم عمر ملزمان کے لیے مقدمات کی کارروائی کے دوران اور جیلوں میں شدید مشکلات کا باعث بنتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر قریباً ایک کروڑ بچے رجسٹرڈ نہیں ہیں اور اس تعداد میں ہر سال 30 لاکھ کا اضافہ ہو رہا ہے۔ بچوں کو پیدائش کے اندراج کا حق نہ دینے کا مطلب ہے کہ پاکستان کے عدالتی نظام میں کم عمر ملزموں کی غلط گرفتاریوں اور پھانسی کی سزاؤں کا بڑا خطرہ ہے۔‘
سارہ بلال نے کہا کہ اگرچہ حکومت یہ دعویٰ کرسکتی ہے کہ پاکستان میں سزائے موت کا کوئی بھی قیدی کم سن نہیں ہے لیکن پیدائش کا اندراج نہ ہونے کی وجہ سے امکان ہے کہ کچھ انڈر ٹرائیل قیدی جن کے خلاف لگائے جانے والے الزامات پرسزائے موت ہو سکتی ہے وہ کم عمر ہوں۔

سارہ بلال کے مطابق پاکستان میں ملزمان کی عمر متعین کرنے کا رواج بہت کم ہے

 سارہ بلال کے مطابق گذشتہ سال لاگو کیے گئے ’جوونائیل جسٹس سسٹم ایکٹ‘ کی پیچیدگیاں اس سے پہلے نافذ جوونائیل جسٹس سسٹم آرڈیننس 2000 سے ملتی جلتی ہیں۔ 
’تاحال وزارت قانون وانصاف اور وزارت انسانی حقوق کی طرف سے جوونائیل جسٹس سسٹم ایکٹ کے ضوابط تشکیل نہیں دیے گئے، جس نے اس قانون میں فراہم کیے گیے حفاظتی عوامل بالخصوص عمر کی تشخیص پر عملدرآمد مشکل بنا دیا ہے۔ پولیس افسران کو عمر کی تشخیص کی ذمہ داری سے آگاہی نہیں ہے اور بہت سے کم عمر افراد کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا کر ان سے اعتراف جرم کروایا جاتا ہے۔‘  
انہوں نے کہا کہ اس قانون کے نفاذ سے قبل گرفتار ہونے والے کم عمر افراد کو بھی کوئی تحفظ فراہم نہیں کیا گیا۔
بہت سے مقدمات میں کم عمر ملزمان کے وکلا بھی کم سنی کا پہلو عدالت کے سامنے نہیں رکھتے جس کی وجہ سے ان کے موکلین کو نقصان ہوتا ہے۔


پاکستان نے 18 سال سے کم عمر میں جرائم کرنے والے افراد کو سزائے موت نہ دینے کے بارے میں قانون سازی کر رکھی ہے

سارہ بلال کے مطابق ’پاکستان میں ملزمان کی عمر متعین کرنے کا رواج بہت کم ہے۔ وکلا کو چاہیے کہ کم عمر ملزمان کی سب سے پہلے عمر متعین کی جائے کیونکہ 18 سال سے کم عمر افراد کو سزائے موت دینا بالکل درست نہیں۔‘   
انسداد دہشت گردی کی قومی اتھارٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی جیلوں میں مجموعی طور پر 53 ہزار  قیدیوں کی گنجائش ہے جبکہ ان میں اس وقت 87 ہزار کے قریب قیدی موجود ہیں، جن میں سے 4688 سزائے موت کے قیدی ہیں۔  
جوونائیل جسٹس سسٹم ایکٹ پر عملدرآمد سے متعلق استفسار پر وزارت انسانی حقوق کے ایک ترجمان نے ’اردونیوز‘ کو بتایا کہ انہوں نے اس بارے میں تازہ ترین معلومات کے حصول کے لیے تمام صوبوں کے متعلقہ شعبوں کو خطوط ارسال کر رکھے ہیں لیکن ان کی طرف سے ابھی کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

شیئر: