Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسکندریہ کے سمندر سے2 تاریخی شہروں کے کھنڈر دریافت 

مصری اور یورپی ماہرین آثار قدیمہ نے اسکندریہ شہر کے سمندر کی تہہ سے ’’کانوب‘‘اور ’’ ھیراکلون‘‘ تاریخی شہروں کے کھنڈر دریافت کر لئے۔ ماہرین آثار ایس ایس پی آئی آلے کی مدد سے 2ماہ سے انہیں تلاش کر رہے تھے۔
اسکائی نیوز کے مطابق مصری وزارت آثار قدیمہ نے فیس بک پر بیان جاری کیا ہے ۔وزارت نے بتایا کہ یورپی اور مصری ماہرین آثار قدیمہ نے خلیج ابی قیر میں غرق کانوب اور ھیراکلون شہروں کی تلاش کا کام مکمل کر لیا۔
ماہرین آثار کو کانوب شہر کی متعدد عمارتوں کے کھنڈر ملے ہیں۔سونے کے سکے ، انگوٹھیاں اور ہار دریافت ہوئے ہیں۔ان کا تعلق صاوی دور سے ہے۔مٹی کے برتن بھی ملے  ہیں۔

مصری وزارت نے بتایا کہ بطلمی دور سے تعلق رکھنے والے تانبے کے سکے اور بیزنطی دور کے سونے کے سکے ملے ہیں۔دریافت شدہ نوادر سے ظاہر ہوتا ہے کہ کانوب شہر چوتھی صدی قبل مسیح آباد تھا۔
ماہرین آثار قدیمہ کی ٹیم کے سربراہ فرینک گوڈیو نے بتایا کہ ھیراکلون شہر کے کھنڈر ات کی تفصیلات دیتے ہوئے بتایا کہ یہاں ایک پوجا گھر کے کچھ حصے ملے ہیں ۔ یہ پوری طرح سے تباہ کر دیا گیا تھا۔ یہ ’’آمون جرب‘‘ شہر کا بڑا پوجا گھر تھا۔یہاں سے سامان ذخیرہ کرنیوالے  مٹی کے برتن  ملے ہیں ۔ دوسری تیسری صدی قبل مسیح کے دوران دستر خوان پر استعمال کئے جانیوالے برتن بھی ملے ہیں۔بطلیموس دوم کے دور سے تعلق رکھنے والے تانبے کے سکے دریافت ہوئے۔کئی ستونوں کے ٹکڑے ملے ہیں ۔یہ سمندر کی تہہ میں 3میٹر گہرے میٹر میں پڑے ہوئے تھے ۔یہاں یونانی دور کے ایک پوجاگھر کے کھنڈر بھی نظر آئے ہیں۔یہ چھوٹا سا پوجا گھر تھا۔اپنے دور کی نہر کے ریت میں دھنسا ہوا پایا گیا۔
مصری جریدے الوطن کے مطابق ھیراکلون شہر کی بندرگاہ کے نشانات بھی نظر آئے ہیں ۔یہ ایک طرح سے کئی بندرگاہوں کا مجموعہ تھی۔اس سے پہلے اس کا کسی کو علم نہیں تھا۔

غرق آب آثار قدیمہ کے ادارے کے سربراہ ایھاب فہمی نے بتایاکہ آثار قدیمہ کی تلاش کا سارا کام ایس ایس پی آئی کی مدد سے انجام دیا گیا۔اس کی مدد سے سمندر کی تہہ میں دھنسے ہوئے نوادر یا سمندر میں دفن آثار قدیمہ کی تصاویر لے لی جاتی ہیں۔
فہمی نے بتایا کہ ماضی میں جو جہاز ڈوب گئے تھے جن کی تعداد 75تک پہنچ چکی ہے ۔ بعض کا ملبہ بھی ہمیں سمندر کی تہہ میں نظر آیا ۔ان میں سے مصرِ قدیم کی ایک کشتی کے آثار دیکھے گئے ۔ اس کشتی کا تعلق پانچویں صدی قبل مسیح کے آخری دور سے ہے ۔
 

شیئر: