Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’لوگ کہتے ہیں میں بہادر ہوں لیکن میرے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں‘

ایک خط میں لکھا گیا ’لوگ کہتے ہیں میں بہادر ہوں لیکن میرے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں۔‘ (فوٹو:روئٹرز)
جنگ سے تھکے ہارے اور مستقبل کے بارے میں غیر یقینی صورتحال سے دوچار سینکڑوں افغان شہریوں نے خط لکھنے کی ایک نئی مہم شروع کی ہے جس کے ذریعے وہ طاقتور لوگوں کو اپنے جذبات پہنچانا چاہتے ہیں جو افغان طالبان کے ساتھ امن معاہدہ کریں گے۔
افغانستان کے مختلف حصوں سے لکھے جانے والے ان خطوط میں لکھاریوں کے تاثرات ہیں۔ ان میں خوف بھی ہے اور مشکل حالات سے نبرد آزما ہونے کے حوالے سے جذبات بھی۔

ان خطوط میں افغان عوام جنگ اور امن کے حوالے سے اپنے احساسات بیان کر رہے ہیں(فوٹو: امید شریفی ٹوئٹر)

ایک خط میں، جس میں خط لکھنے والے کا نام نہیں، لکھا گیا ہے کہ ’میں غم و صدمے میں ہوں لیکن میں مسکرا رہا ہوں، لوگ کہتے ہیں میں بہادر ہوں لیکن میرے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں۔‘
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق یہ خطوط ایک پروجیکٹ ’درد دل‘ کا حصہ ہیں، ان میں امریکی سفیروں، طالبان اور افغان حکومت کے اعلیٰ حکام کو مخاطب کیا گیا ہیں۔
یہ خطوط امریکہ اورافغان طالبان کے درمیان مذاکرات کے وقت لکھے جا رہے ہیں جن میں 18 برس سے جاری جنگ کو ختم کرنے کے لیے سیاسی حل تلاش کیا جا رہا ہے۔

ان خطوط کو اعلیٰ افغان و امریکی حکام اور طالبان کو بھیجا جائے گا (فوٹو: امید شریفی ٹوئٹر)

افغان دارالحکومت سے لکھے گئے ایک خط میں کہا گیا ہے ’میں اس امید کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ کابل میں ایک بہترین زندگی ملے گی، ہم کشیدگی کی صورتحال میں رہ رہے ہیں، میں صورتحال کو بدل تو نہیں سکتا لیکن میں پھر بھی یہ خط لکھ رہا ہوں۔‘
’درد دل‘ پروجیکٹ نے عام افغانوں کو ایک ایسے وقت میں اپنے احساسات بیان کرنے کا موقع دیا ہے جب امن مذاکرات میں سیاست غالب ہے، حتیٰ کہ  افغانستان میں لڑائی بھی ختم نہیں ہوا۔
اس پروجیکٹ کے منتظم امید شریفی کہتے ہیں کہ موجودہ غیر یقینی کی صورتحال زیادہ تر افغانوں کے لیے نہایت پریشان کن مرحلہ ہے۔
ان کے مطابق ’زیادہ تر لوگ ڈپریشن اور خراب ذہنی صحت جیسے مسائل سے لڑ رہے ہیں۔‘

یہ خطوط افغانستان کے مختلف حصوں سے وصول ہورہے ہیں (فوٹو: امید شریفی ٹوئٹر)

امید شریفی کی ٹیم نے ان خطوط کے لیے خصوصی لیٹر باکس کیفوں، تعلیمی مراکز، ہسپتالوں اور حکومتی افسران کے دفاتر کے سامنے لگائے ہیں۔
اور لوگوں کو کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنے اضطراب اور امن کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کریں۔
ان خطوط کو دارالحکومت کابل کی ایک آرٹ اکیڈمی ’آرٹ لارڈز‘ میں جمع کیا جا رہا ہے اور ان کو سفیروں، حکومتی اعلیٰ حکام اور طالبان کو بھیجا جائے گا۔
امید شریفی کہتے ہیں ’ہر کسی کا حق ہے کہ وہ اپنی کہانی بیان کرے، ان خطوط میں بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کے قصے بھی نظر آئیں گے کچھ میں آپ کو یکجہتی اور امید کی کرن بھی نظر آئے گی۔‘

لوگوں کو کہا گیا کہ وہ اپنے اضطراب اور امن کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کریں(فوٹو: امید شریفی ٹوئٹر)

افغانستان کئی دہائیوں سے جنگ کی تباہ کاریوں کا شکار رہا ہے۔ تشدد، عدم استحکام اورغربت نے تقریباً ہر افغان گھرانے کو متاثر کیا ہے۔ کئی افغان ذہنی بیماریوں کے مسائل کے شکار ہیں۔
محکمہ صحت کے ترجمان واحد مایار کے مطابق آدھے سے زیادہ افغان اپنی زندگیوں میں ذہنی بیماریوں کے مسائل کا شکار رہیں گے۔
وہ کہتے ہیں ’امن مذاکرات نے جہاں امید دی ہے وہی لوگوں کو اضطراب بھی شکا کیا ہے، ہم سوچتے ہیں کہ کیا کبھی امن آئے گا اور ہمارے ذہن پرسکون ہو جائیں گے۔‘
کسی کو یہ توقع نہیں کہ خطوط کی یہ مہم چار دہائیوں سے جنگ کے زخموں کو بھر سکے گی تاہم اس سے کم از کم یہ ضرور ہو جائے گا کہ لوگ غیر یقینی مستقبل کے لیے تیار ہو جائیں گے۔
ایک خط میں درج تھا کہ ’ایسا وقت بھی تھا جب میں چاہ رہا تھا کہ میں اپنے ملک سے بھاگ جاؤں لیکن پھر میں نے سوچا کہ مجھے یہاں اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے اور امن کا انتظار کرنا چاہیے کیونکہ کابل رہنے کے لیے ہمیشہ سے ایک بہترین جگہ ہے۔‘

شیئر: