Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عرفان صدیقی 14 روزہ ریمانڈ پر جیل منتقل

پولیس کے مطابق عرفان صدیقی نے اپنے کرایہ دار کے کوائف جمع نہیں کروائے۔ فوٹو: اے ایف پی
نواز شریف کے سابق مشیر عرفان صدیقی کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا ہے۔
انہیں اسلام آباد کے تھانہ رمنا کی پولیس نے کرایہ داری ایکٹ کی خلاف ورزی کے الزام میں اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ سے جمعے کی شپ کو گرفتار کیا تھا۔
پولیس کے مطابق عرفان صدیقی کی جانب سے اپنے کرایہ دار کے کوائف جمع نہیں کروائے گئے تھے جس کی وجہ سے انہیں حراست میں لیا گیا۔
گرفتاری کے بعد عرفان صدیقی کو سیکٹر جی 11 کی مجسٹریٹ مہرین بلوچ کی عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں پولیس نے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کی استدعا کی تھی۔۔ تاہم عرفان صدیقی کے وکلا نے جوڈیشل ریمانڈ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان پر یہ مقدمہ جھوٹا اور بے بنیاد ہے۔  

عرفان صدیقی مجسٹریٹ کی عدالت میں قلم لہراتے رہے۔

مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے مقامی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے عرفان صدیقی کی گرفتاری کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ’عرفان صدیقی نے نواز شریف کے بیانیے کا ساتھ دیا ہے، یہی ان کا قصور ہے۔ ان کے خلاف جعلی ایف آئی آر درج کروائی گئی کیونکہ وہ گھر ان کے نام نہیں بلکہ ان کے بیٹے کے نام ہے۔‘  
انہوں نے مزید کہا کہ ’عمران خان بنی گالہ میں اپنا محل ریگولیٹ کروا لیتے ہیں لیکن دوسروں کو جیل بھیج دیتے ہیں۔‘
دوسری طرف معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ اس گرفتاری کی چھان بین کی جائے گی۔
مقامی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قانون سب کے لیے برابر ہے۔ حکومت کی یہ پالیسی نہیں کہ سیاسی بنیادوں پر گرفتاریاں کی جائیں بلکہ قانون کی حکمرانی حکومت کی ذمہ داری ہے۔
ان کے مطابق نیشل ایکشن پلان کے تحت کرایہ دار کی معلومات پولیس کو جمع کروانا لازمی ہوتا ہے۔
فردوس عاشق اعوان کے بقول کرایہ داری سے متعلق قانون خود ن لیگ نے بنایا تھا۔ عرفان صدیقی نے جس کو گھر کرایے پر دیا ان کے حوالے سے کچھ سوالات ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ عرفان صدیقی کو ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کرنا مناسب نہیں تھا۔

ایف آئی آر کے مطابق عرفان صدیقی نے جی 10 میں کرایے پر دیے گئے مکان کے کوائف جمع نہیں کروائے۔
ایف آئی آر کے مطابق عرفان صدیقی نے جی 10 میں کرایے پر دیے گئے مکان کے کوائف جمع نہیں کروائے۔

واضح رہے کہ حال ہی میں سابق حکومت کے کئی رہنماوں کی گرفتاری ہوئی ہے۔
کچھ روز قبل قومی احتساب بیورو کے جانب سے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی گرفتاری عمل میں آئی، جبکہ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے۔
مسلم لیگ ن کی سینیئر نائب صدر مریم نواز نے شاہد خاقان عباسی کی گرفتاری پر اپنے ردعمل میں کہا تھا ’میرے ہموطنو! آپ کے ووٹ سے منتخب ہونے والا ایک اور وزیر اعظم گرفتار! جو آپ کے ووٹ سے آئے گا، کیا یہی لا قانونیت، توہین اور ناانصافی اس کا مقدر بنے گی؟‘
مریم نواز نے شاہد خاقان عباسی کی گرفتاری کے لیے جاری نیب کے اریسٹ وارنٹ کی فوٹو کاپی بھی شیئر کی جس پر مبینہ طور پر عباسی کو گرفتار کیا گیا۔
نیب نے شاہد خاقان عباسی کی گرفتاری سے متعلق ایک پریس رلیز جاری کیا تھا جس میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ انہیں ایل این جی کیس میں گرفتار کیا گیا۔ 
جمعرات کو شاہد خاقان عباسی کی گرفتاری کے بعد لاہور میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے کہا تھا کہ ’خاقان عباسی کی گرفتاری رانا ثنا اللہ کی طرح جعلی ہے۔ ان کو روک کر گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے وارنٹ کا پوچھا، جس پر نیب کے افسر پریشان ہو گئے اور دفتر کی طرف بھاگے، پھر ڈی جی لیول کے افسر آئے اور شاہد خاقانی عباسی کو وٹس ایپ میسج دکھایا جس پر انہوں نے پوچھا تحریری آرڈر کہاں ہے۔ جس پر افسر پھر بھاگے اور ایک فوٹو کاپی لے کر آئے۔ یہ حال ہے اس حکومت کا، صرف مسلم لیگ ن ان کا ٹارگٹ ہے۔‘
اس سے پہلے مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثنا اللہ کی اینٹی نارکوٹکس فورس نے منشیات سمگلنگ کے الزام میں حراست میں لے لیا تھا۔

کرایہ داری ایکٹ کیا ہے؟ 

کرایہ داری ایکٹ کے تحت مالک مکان اور کرایہ دار کے درمیان تحریری معاہدہ طے ہونا لازم ہے جس میں معاہدے کی تفصیلات اور کرایہ دار کے کوائف درج کیے جاتے ہیں۔ یہ معاہدہ متعلقہ تھانے میں جمع کروایا جاتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مالک مکان اور کرایہ دار کے درمیان تنازع کی صورت میں تحریر شدہ معاہدے کے تحت عدالت کے ذریعے حل نکالا جا سکے۔ 
پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے پیش نظر قانون کرایہ داری ایکٹ پر عملدرآمد کروانے کے لیے ترامیم کی گئیں جس کے تحت کرایہ دار کے کوائف جمع نہ کروانے والوں کو 10 ہزار روپے جرمانہ اور چھ ماہ تک کی قید ہو سکتی ہے۔

سوشل میڈیا پر ردعمل

عرفان صدیقی کو کرایہ داری ایکٹ کے تحت گرفتار کیے جانے پر سیاستدانوں، صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین کا ردعمل بھی سامنے آئے ہے۔
ن لیگ سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے صاحبزادے علی ڈار نے اپنی ٹویٹ میں لکھا ہے کہ ’عرفان صدیقی صاحب کو سادہ لباس میں لوگ آئے اور بغیر کوئی وارنٹ، کوئی ایف آئی آر دکھائے لے گئے۔ ایک ایسا شخص جس کی زندگی کا کل سرمایہ ہی اس کے الفاظ ہیں اور جو صحافت سے ایک لمبے عرصے سے وابستہ ہے، آج اس کے لیے بھی صحافی آواز نہیں اُٹھائیں گے؟ اٹھائیں آواز کہ اس سے پہلے آپ بھی اٹھائے جائیں۔‘
شفیق احمد ایڈووکیٹ نامی ایک ٹویٹر ہینڈل نے لکھا کہ ’عرفان صدیقی صاحب خوش قسمت نکلے کہ صرف کرایہ داری ایکٹ کی خلاف ورزی کا مقدمہ بنایا گیا ورنہ جس طرح رات کے ایک بجے سادہ کپڑوں اور پولیس کی بھاری نفری نے گرفتار کیا تو لگ رہا تھا کہ شائد ان کے گھر سے ایٹمی ھتھیار برآمد ھوں گے،جس کی ڈیلیوری انھوں نے ایران کو دینی تھی۔‘

زین سردار نام کے ایک ٹویٹر صارف نے اپنے ردعمل میں کہا کہ ’چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹها کر چلے۔ پاکستان کے سینئر ترین صحافی اور کالم نویس عرفان صدیقی صاحب کو ریاست نے گهر کے باہر سے اغواء کر لیا لیکن پاکستان کا میڈیا پهر بهی برطانیہ سے زیادہ آزاد ہے۔‘

علی فرحان نامی ایک ہینڈل نے طنزیہ انداز میں ٹویٹ کی کہ ’پاکستان میں جو بھی گرفتار ہوتا ہے وہ فرشتہ بن جاتا ہے۔ پاکستان فرشتوں سے بھرا پڑا ہے، خلائی مخلوق کرپشن کی ذمہ دار ہے۔‘

 

شیئر: