Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امرناتھ یاترا: ہندوؤں کے لیے عبادت، کشمیریوں کا روزگار

زعفرانی رنگ کے لباس میں ملبوث ہندو یاتری دشوار راستوں سے گزرتے ہوئے امرناتھ پہنچتے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
انڈیا اپنے زیر انتظام کشمیر کے دور دراز علاقے پہلگام میں واقع امرناتھ کے غاروں کی زیارت کو اس شورش زدہ ریاست میں فرقہ ورانہ ہم آہنگی کے ماڈل کے طور پر پیش کر رہا ہے۔
کشمیر انڈیا کی واحد مسلم اکثریتی رہاست ہے اور یہاں کے زیادہ تر باسی ریاست پر ہندوستان کی حکمرانی کے خلاف ہے۔
پاکستان اور انڈیا کشمیر پر اب تک دو جنگیں لڑ چکے ہیں اور اس سال کے شروع میں مبینہ طور پر پاکستانی شدت پسندوں کے ایک گروپ کی جانب سے انڈیں آرمی کے قافلے پر خود کش حملے کے بعد دونوں ممالک ایک بار پھر جنگ کے دھانے پر پہنچ گئے تھے۔
انڈیا کی ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی مودی سرکار نے اپنی تمام تر توجہ مذہبی سیاحت پر مرکوز کر رکھی ہے اور اس سال کمبھ کے میلے پر حکومت نے خطیر رقم خرچ کی جس میں 10 کروڑ سے زیادہ افراد گنگا میں اشنان کرنے کے لیے جمع ہوئے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کشمیر کے پہلگام کے علاقے میں امرناتھ یاترا کی تیاریوں کے لیے جموں کشمیر کی ریاستی حکومت نے 7 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کی خطیر رقم خرچ کی۔ امرناتھ یاترا یکم جولائی سے شروع ہوئی ہے جو چھ ہفتوں تک جاری رہے گی۔


ہندو امرناتھ کے غاروں کو مقدس مقام تصور کرتے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

امرناتھ جی شرائن بورڈ کے ایڈیشنل چیف ایگزیکٹیو انوپ کمار سونی کا اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’یہ (امرناتھ یاترا) مذہبی ہم آہنگی کی بہترین مثال ہے۔‘
امرناتھ کا غار تقریباً سارا سال برف سے ڈھکا رہتا ہے اور اس میں موجود برف کے رسوب کلسی کو ہندو مذہب کے پیروکار شیوا بھگوان کا جسمانی اظہار مانتے ہیں۔
زعفرنی رنگ کے لباس میں ملبوث ہندو یاتری غار کی تصویریں گلے میں ڈالے گلشئیرز اور دشوار راستوں سے گزرتے ہوئے 46 کلومیٹر کا سفر طے کرکے امرناتھ پہنچتے ہیں۔ یاتریوں میں سے کئی ننگے پاؤں بھی سفر کرتے ہیں۔
لمبے اونی کوٹ پہنے ہوئے گاؤں کے ہزاروں کشمیری مسلمان یاتریوں کے لیے رستہ صاف کرتے ہیں جبکہ دوسرے انہیں گدھے، خچر اور خیمے کرایے پر دیتے ہیں۔ حکومتی اعدادو شمار کے مطابق اس سال امرناتھ آنے والے تین لاکھ افراد میں سے ایک چوتھائی افراد کو طبی امداد کی ضرورت پڑی۔ اس کے علاوہ روا برس اب تک 24 یاتریوں کی موت ہو چکی ہے۔  
ابھی باؤ نام کے ایک ہندو یاتری نے بتایا کہ ہرایک فرینڈلی ہے اور کوئی دشمنی نہیں۔ امرناتھ کے یاتریوں پر شدت پسند گروپوں کی جانب سے تواتر سے حملے ہوتے رہے ہیں۔ آخری مرتبہ 2017 میں ایک حملے میں آٹھ یاتری ہلاک ہو گئے تھے۔
اس سال حکومت نے بار کوڈنگ کا نظام متعارف کروایا ہے جس کے ذریعے صرف رجسٹرڈ یاتریوں کو ہی اس راستے پر جانے کی اجازت دی جا رہی ہے۔


یاتریوں میں سے کئی ننگے پاؤں بھی سفر کرتے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

کشمیر میں علیحدگی پسند کئی سال سے انڈیا کی کشمیر پر حکمرانی کے خلاف مہم چلا رہے ہیں جس میں شدت پسند گروہوں کی جانب سے شروع کی جانے والی تحریک بھی شامل ہے۔ اس تحریک کے جواب میں انڈین سیکیورٹی فورسز نے پرتشدد علیحدگی پسندوں کو کچلنے کے لیے جوابی کارروائیاں بھی کی ہیں۔
کشمیر میں کشیدگی ریاست کے فارمنگ اور سیاحت کے شعبوں کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ ہندو یاتری پہلگام کے بیشتر رہائشیوں کے لیے روزی روٹی کی امید بن کر یہاں آتے ہیں۔ 
امرناتھ کے راستے میں قائم کیپموں میں یاتریوں کو ایک رات کے لیے 200 سو روپے میں دو ٹینٹ کرایے پر  دینے والے فیروز احمد وانی نے تاریخ میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے اور وہ بطور ٹیوٹر بھی خدمات سر انجام دیتے ہیں۔ فیروز کہتے ہیں کہ ’یہاں پرائیویٹ سیکٹر نہیں اور نہ ہی نوکریاں ہیں لہذا پڑھے لکھے نوجوانوں کا تمام تر انحصار اس یاترا پر ہی ہے۔‘
فیروز کے بقول ’ہم عام لوگ ہیں، یہ لڑائی جھگڑے کرنے کا فیصلہ سیاستدانوں کا کام ہے۔‘

شیئر: