Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

 اور جب دھرتی بیمار ہو جائے؟

ملک نام کی چادر کیا ہوتی ہے؟ پوچھنا ہو تو سفاک آسمان تلے شامیوں سے پوچھیے ، افغانوں سے پوچھیے ، فلسطینیوں سے پوچھیے یا روہنگیوں سے پوچھیے: فوٹو اے ایف پی
مریض اور بچے کو یکساں توجہ، نگہداشت، زود ہضم غذا اور نرم گفتگو کی ضرورت ہوتی ہے۔
بچوں کی بڑی سے بڑی خطا کو بھی علامتی سرزنش کے ساتھ بچپنا سمجھ کے درگزر کیا جاتا ہے اور سنگین بیماری میں مبتلا شخص کا بھی مسلسل حوصلہ بڑھایا جاتا ہے، دلجوئی جاری رہتی ہے اور اس کی توجہ مضرِ صحت خواہشات سے سلیقے کے ساتھ ہٹائی جاتی ہے۔
دنیا کا کوئی بھی ڈاکٹر جاں بلب مریض کے منہ  پر یہی کہتا ہے’ آپ بالکل پریشان نہ ہوں۔ بس ذرا سی تکلیف ہے۔ جلد ٹھیک ہوجائیں گے۔ ہم آپ کو بھلا چنگا کیے بغیر تھوڑی جانے دیں گے مگر وعدہ کریں کہ صحت یاب ہونے کے بعد بد پرہیزی نہیں کریں گے اور ایک برس تک  ہر مہینے چیک اپ کرانا نہیں بھولیں گے۔‘
اہلِ خانہ اور عیادت کے لیے آنے والے ذہینوں کو اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ مریض کس سنگینی سے گزر رہا ہے تب بھی وہ دم ، درود ، دلاسے کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ اس سے اچھی اچھی باتیں کرتے ہیں۔

 

افسردگی، ڈیپریشن اور ناامیدی سے نکالنے کے لیے دلچسپ قصے اور لطائف سناتے ہیں۔ مریض کا ہاتھ اپنے ہاتھ کی گرفت میں لیتے ہوئے کہتے ہیں یہ ہارٹ اٹیک؟ 
ارے اس سے کیا ڈرنا۔ میرے ماموں کو تین ہارٹ اٹیک ہوچکے ہیں۔ دو بائی پاس کروا کے بیٹھے ہیں پھر بھی آپ نے دیکھا ہوگا کہ پچھلے دس برس سے بھلے چنگے خوش و خرم ہیں۔ آپ کو تو ابھی پہلا ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔ آج کل تو لگ بھگ سبھی کو دل کی چھوٹی موٹی تکلیف ہوجاتی ہے اس سے کیا ڈرنا۔ ابھی تو ماشااللہ جینے کو عمر پڑی ہے۔
کینسر؟ کینسر تو بھائی آج کل بچوں کا کھیل ہوگیا ہے۔ چچا جان کو نہیں دیکھتے۔ ان کی تشخیص تو بالکل آخری سٹیج پر ہوئی تھی پھر بھی حوصلہ نہیں ہارا۔ کیمیو تھراپی ہوئی، ایک معمولی سا آپریشن ہوا اور دیکھیے پچھلے پندرہ برس سے ٹھیک ٹھاک گھوم پھر رہے ہیں اور پوتے نواسوں کو بھی کھلا رہے ہیں تو جانِ جگر بالکل پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
وہ دن گئے جب کینسر کا نام سنتے ہی غش آجاتا تھا۔ اب تو ایسی ایسی دوائیں ایجاد ہو گئی ہیں کہ پوچھو مت۔ تمہارا تو ڈاکٹر  بھی بہت اچھا ہے۔ دور دور سے مریض آتے ہیں۔ سب کو یہی کہتا ہے  آدھا علاج  میں کروں گا آدھا تم خود کرو گے۔ یعنی جینے کی تمنا کبھی نہیں چھوڑنا اور تم نے دیکھا کہ اس ڈاکٹر کے ہاتھ میں کتنی شفا ہے۔ لو یہ جوس پیو اور دل سے تمام ایسے ویسے خیالات نکال دو، زندگی بہت حسین ہے، ابھی تم نے دیکھا ہی کیا ہے۔
عجیب بات ہے کہ جو لوگ  اپنے مریض کی آخری سانس تک اتنی دل جوئی کرتے ہیں۔ اپنے خونی رشتوں کے ہراچھے وصف کو ابھارتے اور عیبوں کو نظرانداز کرتے ہیں۔ جو کسی کی بے بسی نہیں دیکھ سکتے۔ جو کسی کمزور کو پٹتے دیکھ کر یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اس کا قصور کیا ہے۔
جو کسی بھوکے کو بھوکا دیکھتے ہیں تو بھلے مدد نہ کرسکیں مگر اندر ہی اندر ضرور احساسِ جرم میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور جو ایک ایکڑ کیا اپنی ایک فٹ زمین کے لیے لڑ مرتے ہیں وہی لوگ کتنی آسانی سے جس ملک میں رہتے ہیں اسی کے بارے میں کہہ دیتے ہیں اس  کا تو خدا ہی حافظ ہے۔ مجھے تو یہ پنپتا نظر نہیں آ رہا۔

جو کسی کی بے بسی نہیں دیکھ سکتے جو کسی کمزور کو پٹتے دیکھ کر یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اس کا قصور کیا ہے: فوٹو اے ایف پی

دراصل یہ ملک بنا ہی غلط  تھا۔ جیسے پہلے ایک بازو ٹوٹ گیا اب دوسرا بازو، ہاتھ ، پاؤں بھی ٹوٹ جائیں گے۔ شرم آتی ہے ایسے ملک کا شہری کہلاتے ہوئے۔ بڑی غلطی کی ہمارے بزرگوں نے، جانے کیوں یہاں آ گئے۔ کیا ضروری تھا کہ میں بھی یہیں پیدا ہوتا۔ اس سے تو اچھا تھا کہیں کانگو وانگو میں جنم لے لیتا۔
ویسے اس ملک نے ہمیں کیا دیا جو تن پر تھا وہ بھی چھین لیا۔ اس کے لئے دعا بھی مانگیں تو کیا مانگیں۔ شکر کریں ابھی تک بددعا منہ سے نہیں نکلی۔ یہ ملک جس بیماری میں مبتلا ہے وہ لاعلاج ہے۔ کون سا ہمسایہ ہے جو اس سے تنگ نہیں۔ ہر ایک کے پھڈے میں ٹانگ اڑانا اس کی عادت ہے۔ گھر میں نہیں دانے اماں چلیں بھنانے۔
اجی ملک کیا ہے اپنے لیے عذاب اور دنیا کے لیے تماشا ہے۔ مجھے تو بالکل حیرت نہ ہوگی اگر کسی دن ساری دنیا مل کے اس پر ٹوٹ پڑے اور تیا پانچا کردے۔ اس ملک نے بھی  مہذب دنیا میں اپنے رہنے کے لیے گنجائش کہاں چھوڑی ہے۔
کیا کبھی ملک کو گالی دیتے دیتے آپ کے ذہن میں آیا کہ میرے بڑے بھائی نے اپنی ماں کو دو تھپڑ مار دیے۔ قصور میرے بھائی کا نہیں اس گھر کا ہے جس میں یہ موذی رہتا ہے اس لیے باقی بہن بھائی مل کے یہ گھر ہی بیچ ڈالیں تو پاپ کٹے۔ فلانے ہسپتال میں سات نوزائیدہ بچے آکیسجن نہ ملنے کے سبب جان سے گئے۔ دراصل یہ اسپتال ہی منحوس ہے لہٰذا اس پر بلڈوزر چلنا چاہیے۔

ویسے اس ملک نے ہمیں کیا دیا جو تن پر تھا وہ بھی چھین لیا: فوٹو اے ایف پی

فلانے سکول میں ہر سال ستر فیصد بچے فیل ہو جاتے ہیں آؤ اس سکول کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں۔ ڈھماکی عبادت گاہ کے لاؤڈ سپیکرز سے مسلسل میرے عقیدے کو چیلنج کیا جاتا ہے۔ خرابی دراصل عبادت گاہ میں ہے۔ چلو آگ لگا دیتے ہیں۔ یہ شہر مظلوموں کے خون سے رنگا ہوا ہے۔ کتنا اچھا ہو کہ کوئی باہر سے آ  کے اس شہر پر ہی قبضہ کر لے۔
اگر آپ اتنی سی بات نہیں سمجھ سکتے کہ کوئی بھی ملک ایک مخصوص رقبے کی چار دیواری سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔ جو بھی اچھائی یا برائی ہے اس کے ذمہ دار چار دیواری کے اندر رہنے والے  ہوتے ہیں۔ حکومت، اس کے اداروں اور اپنی بے اعتدالیوں کے کڑے احتساب کی کوشش کے بجائے چار دیواری کو گالی دینا کہاں کی عقلمندی ہے۔ جب  ماں بیمار ہوجائے تو آپ اسے بچانے کے لیے زمین آسمان ایک کردیتے ہیں اور جب دھرتی بیمار ہوجائے تب؟
ملک نام کی چادر کیا ہوتی ہے؟ پوچھنا ہو تو سفاک آسمان تلے شامیوں سے پوچھیے، افغانوں سے پوچھیے، فلسطینیوں سے پوچھیے یا روہنگیوں سے پوچھیے۔

شیئر: