Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شاہراہوں پر لوگوں کی مدد کرتے ’فرشتے‘

موٹر سائیکل ٹھیک ہونے پر مصیبت کا شکار افراد کے چہرے پر جو خوشی ہوتی ہے اس کا کوئی معاوضہ نہیں ادا کر سکتا۔
اسلام آباد ایک خوبصورت شہر ہے۔ اس کی وسیع و عریض سڑکیں اور ان کے کناروں پر سبزہ اور درختوں کے جھنڈ یہاں سفر کو خوشگوار بناتے ہیں۔
 لیکن ان خوبصورت شاہراؤں پر ڈرائیونگ کا مزہ اس وقت کرکرا ہو جاتا ہے جب آپ کی گاڑی یا موٹر سائیکل خراب یا پنکچر ہو جائے۔ پھر اس کو میلوں تک گھسیٹ کر کسی ورکشاپ لے جانا پڑتا ہے، یا پھر وہیں چھوڑ کر ٹیکسی پر جا کر مکینک لانا پڑتا ہے جو اپنی دکان چھوڑ کر آنے پر دو گنا معاوضہ وصول کرتے ہیں۔ اور اگر آپ کے ساتھ ہمسفر خواتین ہیں تو پھر تو مصیبت اور بڑھ جاتی ہے کیونکہ نہ آپ ان کو سڑک پر اکیلا چھوڑ کے جا سکتے ہیں اور نہ ہی ساتھ لے جا سکتے ہیں۔
  ایسا ہی ایک مرتبہ ملک رضوان کے ساتھ بھی ہوا۔ جب وہ اپنی بہن کے ہمراہ اسلام آباد کی مرکزی شاہراہ جو شہر کو راولپنڈی سے ملاتی ہے، پر اچھے موسم کا لطف لیتے ہوئے مناسب رفتار سے چلے جا رہے تھے، کہ ان کی موٹر سائیکل پنکچر ہو گئی۔
رضوان نے پہلے تو انتظار کیا کہ شاید کوئی مکینک ادھر سے گزرے اور کچھ مدد مل جائے لیکن کافی دیر انتظار کرنے کے بعد انہیں بہن کے ہمراہ موٹر سائیکل گھسیٹ کر میلوں پیدل چلنا پڑا اور پھر کہیں جا کر انہیں پنکچر لگانے والی دکان ملی۔
رضوان نے یہ مصیبت تو کاٹ لی، لیکن اس کی وجہ سے ان کے دل میں لوگوں کی مدد کرنے کا جذبہ پیدا ہو گیا اور اس دن انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ وہ شہر کی سڑکوں پر اس طرح کی مصیبتوں کے شکار مسافروں کی مدد کریں گے۔ اگلے روز رضوان نے اپنی موٹرسائیکل کو موبائل ورکشاپ میں بدل دیا اور مصیبت کے شکار لوگوں کی تلاش میں نکل پڑے۔ 
رضوان جو اس سے پہلے متحدہ عرب امارات میں کام کر رہے تھے، نے بتایا کہ اس کام سے نہ صرف یہ کہ لوگوں کی مدد ہوتی ہے بلکہ مناسب آمدن بھی ہو جاتی ہے۔
 ’’لوگ اپنی مرضی سے جو دل کرتا ہے، پیسے دے دیتے ہیں لیکن مجھے درحقیقت ان کی مدد کرکے، مصیبت میں کام آ کر زیادہ خوشی ہوتی ہے۔‘‘

ملک رضوان کے قدم اٹھانے کے بعد اب سڑکوں پر گھومتے پھرتے مکینکس کی تعداد 12 ہوگئی ہے۔ 

 ملک رضوان کو یہ کام کرتے ہوئے تین سال ہو گئے ہیں۔ اور اب انہوں نے اپنے ساتھ مکینکس کی ایک باقاعدہ ٹیم رکھ لی ہے۔ اس ٹیم میں سڑکوں پر گھوم پھر کر مصیبت کا شکار لوگوں کی مدد کرنے والے تقریباً بارہ مکینک شامل ہیں۔
ٹیم کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ سڑک پر ایسے افراد کی تلاش میں رہتے ہیں جن کو مدد کی ضرورت ہو، اور جب بھی وہ مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرتے ہیں تو ان کو اپنا فون نمبر دے دیتے ہیں جو اگر کسی اور شخص کو سڑک پر مسئلے کا شکار دیکھتے ہیں تو اُن کو موبائل مکینک کا نمبر دے دیتے ہیں۔
’ اگر مدد کے لیے جانے کا سفر پانچ کلومیٹر سے کم ہو تو صرف پنکچر کی قیمت وصول کرتے ہیں، لیکن اگر سفر اس سے زیادہ ہو تو فی کلومیٹر دس روپے پیٹرول کے لیے وصول کرتے ہیں۔‘
 رضوان کا کہنا ہے کہ موٹر سائیکل یا گاڑی ٹھیک ہو جانے کے بعد مصیبت کا شکار افراد کے چہرے پر جو خوشی ہوتی ہے، وہ دیدنی ہوتی ہے اور اس کا کوئی معاوضہ نہیں ادا کر سکتا۔
 ’’لوگ ہمیں بہت ساری دعائیں دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم ان کے لیے رحمت کے فرشتے ثابت ہوئے۔‘‘
 

شیئر: