Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سوشل میڈیا کی سراب ہستی

بالکل ابھی کھانا کھا کر فارغ ہوئی ہوں۔ فریج میں کل رات کی بچی مسور کی دال اور ابلے چاول پڑے ہوئے تھے۔ ان ہی کو گرم کیا اور ساتھ میں اچار کی برکتیں سمیٹیں۔ کل کی بچی ہوئی سرکے والی پیاز بھی پڑی تھی۔ ہمیشہ کوشش کرتی ہوں کہ برتن کم سے کم گندے ہوں۔ اس لیے جس شیشے کے ڈونگے میں دال پڑی ہوئی تھی اسی میں چاول بھی ڈال دیے۔ برتنوں کا تکلف برتتی تو دھونے کی خفت بھی تو مجھ غریب کو ہی سہنا تھی۔
رات کو آلو مٹر گاجر کی سبزی بھون لوں گی اور توے پر گرم پھلکے دھر دوں گی۔ اللہ اللہ خیر صلیٰ۔ اس دفعہ ویک اینڈ پر بریانی اور نرگسی کوفتے بنانے کا ارادہ ہے۔ تصویریں بھی تب ہی کھینچوں گی۔ یہ روز کی دال ساگ کے لیے تو اتنا کشت کبھی نہ کاٹوں کہ سجا بنا کر کانچ کے برتنوں میں دھروں اور اوندھی ہو کر کیمرہ کلک کرتی رہوں۔ بریانی کی رکابی کو باہر بالکونی میں لے جاؤں کہ وہاں سورج کی روشنی میں اچھی تصویریں آتی ہیں۔ 
روز روز اتنی کسرت نہیں ہوتی، بابا۔

جلدی جلدی میں لکھ رہی ہوں کہ کچھ ہی دیر میں لنچ بریک ختم ہونے کو ہے۔ گھر سے کام کرنے کا رواج یہاں عام ہے۔ لیکن اس کا ایک مسئلہ ہے اور وہ یہ کہ انسان منہ تک نہیں دھوتا۔ جن ملگجے کپڑوں میں صبح سے پھر رہا ہوتا ہے ان ہی میں لیپ ٹاپ پر گردن جھکا دیتا ہے۔ اسی لیے آج کل سیلفی بھی نہیں لے رہی۔ کچھ ڈھنگ کا میک اپ ہو، اچھے سے ہائی لائٹر لگا ہوا، لپ سٹک لپ لائنر کے ساتھ سلیقے سے جمی ہو، آئی لائنر ستاروں پر کمند ڈالے، بال بلو ڈرائی ہوئے ہوں، پورے کپڑے نہ سہی لیکن کم سے کم قمیض تو نئی ہو۔ رہی سہی کسر فلٹر پوری کر دے جس سے ہمارا رنگ اور نسل ہی تبدیل ہو جائے۔ سر پر پھولوں کا تاج ہو یا شیر کی خالہ سے مشابہت ہونے لگے، کیا فرق پڑتا ہے؟
آفٹر آل، سیلفی  لینے کے بھی کوئی آداب ہوتے ہیں پشپا۔
ویسے شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ محنت میں عظمت ہے۔ ہماری اسی انتھک محنت کا ثمر ہے کہ تمام سوشل میڈیا میں ہماری لی گئی تصاویر کی دھوم ہے۔ کسی آتے جاتے سے بھی پوچھ لیجیے تو ہمارے کھانوں کی تعریف ہی کرے گا۔ سہیلیاں ہماری گلیمرس تصاویر کی قسمیں کھاتی ہیں۔ سبزی لینے جاتے ہوئے ہم رستے میں بھی کسی پرندے یا پودے کی تصویر ڈال دیتے ہیں۔ ذرا امپریشن اچھا پڑتا ہے۔ جنگل میں ناچتا مور اور تصویر سے باہر سبزی کا تھیلا کس نے دیکھا۔

لیکن آپ نے تو وہی دیکھا جو ہم نے آپ کو کیمرے کی آنکھ سے دکھایا۔ آپ نے وہی الفاظ سنے جو ہم نے لکھے۔ چہرے پر سجی مسکراہٹ سے دل کا حال کوئی کیسے جان سکتا ہے؟ سوشل میڈیا کے جہاں کئی فائدے ہیں وہاں بہت بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ اس نے ہم سب میں احساس محرومی کو جنم دیا ہے۔ کسی کی یورپ یاترا کی تصاویر دیکھ کر ہمیں اپنے گھر کی تپتی چھت بری لگنے لگتی ہے۔ کسی کی شادی کے نو سال بعد بھی  کی ہنستی مسکراتی تصاویر دیکھ کر اپنے ہی شوہر پر غصہ آنے لگتا ہے کہ وہ ہم پر دل و جان سے اس طرح فریفتہ کیوں نہیں کہ ہر جگہ ہماری ہی تصویریں پوسٹ کرے۔
جہاں ہمارے بچپن میں چند ہی ’عزت دار‘ پیشے تھے اب زمانہ بدل چکا ہے۔ سوشل میڈیا صرف اپنی رائے کے اظہار کا ہی نہیں بلکہ پیسہ کمانے کا بھی ذریعہ ہے۔ ان حضرات کو ’انفلوئینسر‘ کہا جاتا ہے جس کے لغوی معنی اثر انداز ہونے والے کے ہیں۔ گستاخی معاف کہ ہمارے کئی دوست اسی پیشے سے وابستہ ہیں لیکن خدا لگتی یہی ہے کہ خوشیوں کی جھوٹی تصاویر نے صرف احساس محرومی کو جنم دیا ہے۔
اب ہر رشتہ، ہر موقع انسٹا گرام کی پوسٹ کے مطابق نبھایا جاتا ہے۔ شادی جس کی بھی ہو ہماری انسٹاگرام پوسٹ بہترین دکھنی چاہیے۔ اگر کچھ سوشل میڈیا پر اپلوڈ نہیں ہوا تو یقیناً ہوا ہی نہیں۔ مہنگے ریستوران کا چکر لگے نہ لگے چیک ان ڈالنے میں کیا بل آتا ہے۔ انسٹا گرام کی پوسٹ کے پیچھے حقیقی کہانی کیا ہے یہ خدا اور پوسٹ کرنے والا ہی جانتا ہے۔ 
سوشل میڈیا سے متاثر ہو کر اپنی حقیقی زندگی کو کمتر جاننا ایسا ہی ہے جیسے کرن جوہر کی فلم کو زندگی کا پیمانہ سمجھ لیا جائے۔ اگر مجھے راہول نہ ملا تو زندگی ویران ہے۔ سڑک پر راہ چلتے دوپٹے کا پلو کسی کڑیل جوان سے نہ الجھا تو جینے کا مقصد ہی کیا ہے۔ سو کر اٹھوں تو بھی بال بنے ہوں، چہرے پہ ہلکا گلابی میک اپ ہو جو دور سے حقیقی شکل لگے، اپنے محل میں دو رویہ سیڑھیاں ہوں جو بڑی شان سے نیچے آ کر یکجا ہوتی ہوں، جیسے ہی کسی سے نظریں چار ہوں اسے ہم سے حقیقی محبت ہو جائے اور سڑک پر چلتے سب راہگیر اپنی راہ چھوڑ کر ایک انجان گانے پر بہترین ڈانس شروع کر دیں۔ فلم دیکھتے ہوئے بھی ہم اسے حقیقت نہیں سمجھتے۔ 

ہمارا تعلق اس زمانے سے ہے جو فلم کو حقیقت نہیں سمجھتا۔ فلمی ہیرو اور ہیروئینوں کے سکرین پر پرفیکٹ نظر آنے کی وجوہات سے بھی واقف ہے۔ فوٹو شاپ اور میک اپ کو جانتا ہے۔ لیکن ہمارا ہی تعلق اس زمانے سے بھی ہے جو سوشل میڈیا کو حقیقت سمجھ بیٹھا ہے۔ اس پر حقیقی زندگی کو جانچتا ہے۔ کسی کی بریانی اور نرگسی کوفتوں کی تصاویر سے ان کا روز کا دال چاول نہیں جان پاتا۔ ہمارا زمانہ اپنے آپ کو احساس کمتری کی دبیز تہوں میں دفن کیے جاتا ہے۔ 
ہر زمانے کا کوئی نہ کوئی سراب ہوتا ہے جو دور سے لبھاتا ہے لیکن  حقیقت میں محض ایک خیال ہوتا ہے۔ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ ہم سے پچھلے زمانے کا سراب رنگ برنگی فلمیں تھیں۔ ہمارا سراب سوشل میڈیا یے۔ دور سے چمکتا دمکتا، شیر کی خالہ سے مشابہت رکھنے والا، نرگسی کوفتوں سا حسین دکھنے والا لیکن قریب آنے پر سب بھک سے اڑ جاتا ہے۔
خود کو اس سراب کی حقیقت سے آگاہ کیجیے۔ عنقریب افاقہ ہو گا۔ فائدہ نہ ہو تو پیسے واپس۔

شیئر: