Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ورک ویزے پر بیرون ملک جانے کے لیے نئی شرط: 19 نومبر سے ’پاک سافٹ سکلز‘ رجسٹریشن لازم

بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے مطابق اس پروگرام کا مقصد ورکرز کو قانونی تحفظ فراہم کرنا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان سے ورک ویزہ پر بیرونِ ملک جانے والے شہریوں کے لیے 19 نومبر سے ’پاک سافٹ سکلز‘ پر رجسٹریشن لازم قرار دی گئی ہے۔
وزارتِ سمندر پار پاکستانی و انسانی وسائل، ترقی اور بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے مطابق ایسے افراد جو سرٹیفکیٹ حاصل نہیں کر سکیں گے یا پھر رجسٹریشن نہیں کر سکیں گے، انہیں پاسپورٹ پر پروٹیکٹر سٹیمپ جاری نہیں کیا جائے گا۔
اس سے مراد یہ ہے کہ اب وہ پاکستانی جو ورک ویزا پر بیرون ممالک جائیں گے، انہیں پروٹیکٹریٹ کی جانب سے کلیئرنس اسی صورت میں ملے گی جب ان کے پاس یا تو پاک سکلز پلیٹ فارم کا سرٹیفکیٹ ہو گا یا پھر کم از کم وہاں رجسٹریشن کروائی ہو گی۔
بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے مطابق اس پروگرام کا مقصد ورکرز کو قانونی تحفظ فراہم کرنا، غیرقانونی ملازمت اور سمگلنگ سے بچانا، ان کی مہارت بڑھانا اور بیرونِ ملک کام کے ماحول سے آگاہ کرنا ہے۔
پاک سافٹ سکلز پر رجسٹریشن سے کیا مراد ہے؟
19 نومبر 2025 سے بیرونِ ملک ویزا پر جانے والے پاکستانی شہریوں کے لیے حکومتِ پاکستان نے ایک نیا پروگرام نافذ کیا ہے جس کا مقصد ورکرز کو قانونی اور حفاظتی تحفظ فراہم کرنا ہے۔ اس کے تحت تمام ورک ویزا ہولڈرز کے لیے پاک سکلز پلیٹ فارم پر اپنی رجسٹریشن کروانا لازمی ہوگا۔
رجسٹریشن کے بغیر پاسپورٹ پر پروٹیکٹر سٹیمپ جاری نہیں کی جائے گی۔ رجسٹریشن کے دوران شہری اپنی ذاتی معلومات فراہم کریں گے جیسے شناختی کارڈ نمبر، پاسپورٹ نمبر، تعلیمی قابلیت اور بیرون ملک متوقع مراعات کی تفصیلات۔
رجسٹریشن کے بعد متعلقہ دفتر درخواست کی تصدیق کرے گا اور پاسپورٹ پر پروٹیکٹر سٹیمپ لگا دی جائے گی۔ یہ سٹیمپ ورکرز کو بیرون ملک کام کے دوران قانونی تحفظ اور سہولت فراہم کرے گی۔

ورکر ویزے پر بیرون ملک جانے والے پاکستانی شہریوں کے لیے او ای سی سافٹ سکلز ٹریننگ ایک آن لائن پروگرام ہے (فوٹو: اے ایف پی)

اس پروگرام کا ایک اور اہم حصہ سافٹ سکلز ٹریننگ ہے جو آن لائن فراہم کی جاتی ہے۔ اس تربیت میں ورک ویزا ہولڈرز کو پیشہ ورانہ ماحول، ٹیم ورک، ثقافتی اختلافات اور کام کرنے کے مناسب طریقے سکھائے جاتے ہیں تاکہ وہ بیرون ملک بہتر طور پر کام کر سکیں اور اپنے حقوق کا تحفظ کر سکیں۔ سافٹ سکلز کورس مکمل کرنے کے بعد ایک ڈیجیٹل سرٹیفکیٹ جاری کیا جاتا ہے جو پروٹیکٹر اسٹیمپ کی پروسیسنگ کے لیے لازمی ہے۔
شہری سرٹیفکیٹ کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟
ورکر ویزے پر بیرون ملک جانے والے پاکستانی شہریوں کے لیے او ای سی سافٹ سکلز ٹریننگ ایک آن لائن پروگرام ہے جس کا مقصد شہریوں کو بیرون ملک کام کے لیے تربیت دینا اور ان کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانا ہے۔ اس پروگرام میں شامل ہونے کے لیے سب سے پہلے softskills.oec.gov.pk پر اپنا اکاؤنٹ بنانا ہوگا جس میں شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور دیگر ذاتی معلومات فراہم کرنی ہوں گی۔
بیورو آف امیگریشن کے مطابق رجسٹریشن کے بعد شہری مختلف ماڈیولز منتخب کریں گے، جیسے کمیونیکیشن، ٹیم ورک، لیڈرشپ اور پیشہ ورانہ رویے، اور ہر ماڈیول کی ویڈیوز اور لیکچر دیکھیں گے۔ ماڈیولز کے اختتام پر مختصر ٹاسک یا کوئزز مکمل کرنا ضروری ہوں گے اور آخر میں ایک آن لائن ٹیسٹ دیا جائے گا۔
ٹیسٹ کامیابی سے مکمل کرنے کے بعد سرٹیفکیٹ جاری کیا جائے گا جو ورک ویزا پروسیسنگ یا پاسپورٹ پر پروٹیکٹر اسٹیمپ کے لیے لازمی ہوگا۔ واضح رہے اس ٹریننگ کی کوئی فیس مقرر نہیں کی گئی۔

یاسر شمس نے کہا کہ ’اس نئی سرٹیفیکیشن یا ٹریننگ کی شاید اس قدر ضرورت نہیں تھی۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

تاہم یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ نے اس سے قبل آخری تاریخ ستمبر کے وسط تک مقرر کی تھی کہ جن شہریوں کے پاس یہ سرٹیفکیٹ یا رجسٹریشن نہیں ہو گی، انہیں پروٹیکٹر سٹیمپ جاری نہیں کی جائے گی، لیکن بعد ازاں اس تاریخ کو بھی آگے بڑھا دیا گیا تھا۔
لیکن فی الحال اس مرتبہ کوئی توسیع نہیں کی گئی، لیکن حکام بتاتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ اس ڈیڈ لائن میں آگے کوئی توسیع کر دی جائے کیوں کہ حکومت کی کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ شہریوں کو اس ٹریننگ اور اس کے بارے میں آگاہی فراہم کرنے کے بعد ایک حتمی ڈیڈ لائن مقرر کی جائے۔
اردو نیوز نے امیگریشن کے ماہرین سے بھی بات کی ہے اور حکومت کی جانب سے سافٹ سکلز ٹریننگ اور پھر اس کی سرٹیفکیشن کے حوالے سے جاننے کی کوشش کی ہے کہ اس کے بنیادی مقاصد کیا ہیں اور اس کے کیا فوائد یا نقصانات ہیں؟
کراچی سے تعلق رکھنے والے امیگریشن کے وکیل یاسر شمس نے اس حوالے سے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ان کے خیال میں پہلے ہی پروٹیکٹریٹ کی سٹیمپ اور دیگر لوازمات کافی تھے اور اس نئی سرٹیفیکیشن یا ٹریننگ کی شاید اس قدر ضرورت نہیں تھی۔‘

ارسلان ناصر نے بتایا کہ ’پاکستان سے بیرون ملک جانے والوں کے لیے مختلف کیٹگریز کے ورک ویزا ہوتے ہیں۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

تاہم انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اس سے شہریوں کے لیے ویزا پروسیسنگ مہنگی ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بیرونِ ملک ورک ویزا کے لیے شہری کا انٹرویو اور اس کی مہارتیں جانچنے کے بعد ہی ویزا جاری کیا جاتا ہے۔
اسی طرح امیگریشن کے حوالے سے خدمات فراہم کرنے والے ماہر ارسلان ناصر بھی یہ سمجھتے ہیں کہ بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ عملی طور پر زیادہ سے زیادہ پاکستانی ورکرز کو میرٹ پر بیرونِ ملک بھیجنے کے لیے کوئی خاص اقدامات تو نہیں کر رہا تاہم کچھ عرصہ بعد نئی چیزیں متعارف کروا دی جاتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’پاکستان سے بیرون ملک جانے والوں کے لیے مختلف کیٹگریز کے ورک ویزا ہوتے ہیں۔ موجودہ تربیت متنوع پروگراموں کے ساتھ کس طرح ہم آہنگ ہوگی اور درخواست گزاروں کی سکلز کیسے بڑھائے گی، اس حوالے سے بھی مجھے اس فیصلے کی زیادہ سمجھ نہیں آ رہی۔‘

 

شیئر: