غزہ منصوبے پر اقوام متحدہ میں ووٹنگ سے قبل اسرائیلی رہنماؤں کی فلسطینی ریاست کے قیام کی مخالفت
اتوار 16 نومبر 2025 16:32
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیر کو امریکہ کی حمایت سے ہونے والے غزہ امن منصوبے کی توثیق سے متعلق قرارداد سے پہلے ہی، اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو اور ان کی حکومت کے کئی وزرا نے فلسطینی ریاست کے قیام کی کھل کر مخالفت کر دی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق قرارداد کا یہ مسودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سرپرستی میں اسرائیل اور حماس کے درمیان طے پانے والے جنگ بندی معاہدے کا تسلسل ہے، جس کے تحت تباہ حال غزہ میں ایک عبوری انتظامیہ اور عارضی بین الاقوامی سکیورٹی فورس کی منظوری دی جائے گی۔
پچھلے مسودوں کے برعکس موجودہ مسودے میں مستقبل میں ممکنہ فلسطینی ریاست کا حوالہ شامل ہے جسے اسرائیلی حکومت شدت سے رد کرتی ہے۔
نیتن یاہو نے اتوار کو کابینہ کے اجلاس میں کہا کہ ’کسی بھی علاقے میں فلسطینی ریاست کی مخالفت کے حوالے سے ہمارے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔‘
اسرائیلی وزیرِاعظم پر اتحادی جماعتوں کی جانب سے تنقید بھی بڑھ گئی تھی، جن میں دائیں بازو کے وزیرِ خزانہ بیزلیل سموترچ بھی شامل ہیں۔ انہوں نے مغربی ممالک کی جانب سے حالیہ فلسطینی ریاست کے اعتراف پر نیتن یاہو کو ’مؤثر جواب نہ دینے‘ پر آڑے ہاتھوں لیا تھا۔
سموترچ نے ایکس پر نیتن یاہو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’فوراً ایک واضح اور ٹھوس جواب دیں، تاکہ دنیا جان لے کہ ہماری سرزمین پر کبھی کوئی فلسطینی ریاست وجود میں نہیں آئے گی۔‘
وزیراعظم نے جواباً کہا کہ انہیں ’کسی کی توثیق، ٹویٹس یا لیکچرز کی ضرورت نہیں۔‘
دیگر وزرا نے بھی فلسطینی ریاست کے قیام کی مخالفت کی، اگرچہ انہوں نے براہِ راست قرارداد کا نام نہیں لیا۔
وزیرِ دفاع اسرائیل کیٹز نے اتوار کو ایکس پر لکھا کہ ’اسرائیل کی پالیسی واضح ہے: کوئی فلسطینی ریاست قائم نہیں ہو گی۔‘
وزیرِ خارجہ جدعون سار نے بھی ایکس پر کہا کہ ملک ’اسرائیل کے قلب میں کسی فلسطینی دہشت گرد ریاست‘ کو قبول نہیں کرے گا۔
دائیں بازو کے سخت گیر رہنما اور وزیرِ قومی سلامتی اِتمار بن گویر اس سے بھی آگے بڑھ گئے اور فلسطینی شناخت کو ’اختراع‘ قرار دیا۔
مجوزہ سلامتی کونسل کی قرارداد دراصل امریکہ کی حمایت سے ہونے والے اُس معاہدے کے دوسرے مرحلے کی راہ ہموار کرتی ہے، جو گذشتہ ماہ طے پایا تھا اور جس نے 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کے بعد دو برس تک جاری رہنے والی جنگ کا خاتمہ کیا تھا۔
پہلے مرحلے کے دوران فلسطینی جنگجوؤں کی قید سے اسرائیل کے آخری 20 زندہ یرغمالیوں اور تقریباً تمام 28 ہلاک ہونے والے یرغمالیوں کی واپسی عمل میں آ چکی ہے۔
اس کے بدلے اسرائیل تقریباً دو ہزار فلسطینی قیدی رہا کر چکا ہے اور 330 لاشیں واپس کر چکا ہے۔
