Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’میں خواتین کے لیے کچھ نہیں کر سکی‘

خیبر پختونخواہ میں بلدیاتی نظام کا حصہ بننے والی خواتین نمائندگان سبکدوش ہونے پر گہرے جذبات کا اظہار کر رہی ہیں۔
خیبرپختونخواہ میں بلدیاتی نظام کی مدت گذشتہ روز 28 اگست کو ختم ہو گئی تھی۔ اس نظام کی نمایاں خصوصیات میں سے ایک خواتین کا بڑی تعداد میں اس کا حصہ بننا بھی ہے۔
2013 میں صوبہ خیبرپختونخواہ میں تحریک انصاف کی حکومت بننے کے بعد متعارف کروائے گئے مقامی حکومتوں کے نظام میں بہت ساری خواتین نہ صرف مخصوص نشستوں پر منتخب ہوئیں، بلکہ کئی خواتین باقاعدہ انتخابات جیت کر بھی مقامی کونسلوں کا حصہ بنیں۔
پانچ سال قبل بلدیاتی نظام کا حصہ بنے والے تمام کونسلروں کی مدت اب جب ختم ہو گئی ہے، تو بالخصوص خواتین نمائندگان سبکدوش ہونے پر گہرے جذبات کا اظہار کر رہی ہیں۔
شانگلہ جیسے پسماندہ اورمردانہ سبقت والے معاشرے میں جب خواتین نے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا تو یہ تاثر ابھرا تھا کہ اب یہاں کی خواتین بھی سیاسی طور پر بااختیار بنیں گی اور ان کا احساس محرومی کم ہوگا۔

 


خیبر پختونخواہ میں بلدیاتی نظام سے تاثر ابھرا تھا کہ اب یہاں کی خواتین بھی سیاسی طور پر بااختیار بنیں گی۔ فوٹو: اے ایف پی

شانگلہ میں105 ویلج کونسلوں، 28 ضلعی کونسلوں اور 28 تحصیل کونسلوں میں 250 کے قریب خواتین ممبران موجود تھیں۔ لیکن ان کونسلرز کے مطابق بیشتر اجلاسوں میں ان کو مدعو ہی نہیں کیا گیا۔
شانگلہ کی تحصیل الپوری سے تعلق رکھنے والی پی ٹی آئی کی ضلعی کونسلر نسیم بیگم نے اردو نیوز کو بتایا کہ انہیں صرف پہلے دو سال کے بجٹ اجلاس کے لیے بلایا گیا۔
’مجھے کہا جاتا کہ بجٹ کی منظوری کے حق میں ہاتھ اوپر کر دو، میں ہاتھ اوپر کر دیتی، لیکن پانچ سال میں ایک روپے کا فنڈ بھی نہیں ملا ۔‘
’جب میں منتخب ہوئی تو علاقے کی تمام خواتین بہت خوش تھیں، لیکن آج وہ میرے اوپر ہنستی ہیں کہ آپ کیسی کونسلر ہیں،  پانچ سال میں آپ ہمارے لیے کچھ نہیں کر سکیں، سارا علاقہ مجھ سے ناراض ہے۔‘
نسیم بیگم کہتی ہیں کہ جب انہیں فنڈز ہی نہیں ملے تو وہ علاقے کی خواتین اور عوام کو کیا دیتیں۔
 ’میں تو خود غریب ہوں، میں اپنی جیب سے کسی کو کیا دے سکتی ہوں۔‘
نسیم بیگم نے بتایا کہ  2015 اور 2016 کے بجٹ میں ان سے سات لاکھ روپے کا فنڈ دینے کا وعدہ کیاگیا، جو وفا نہ ہوا۔

 


آزاد حیثیت میں کونسلر منتخب ہونے والی قاشی منا آلپوری نے بتایا کہ ان پانچ سالوں کے دوران انہیں کسی اجلاس میں نہیں بلایا گیا۔ فوٹو: اردو نیوز

قاشی منا آلپوری آزاد حیثیت میں 750 ووٹ لے کر کونسلر منتخب ہوئیں۔
 انہوں نے ’اردونیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوے کہا کہ پانچ سال میں انہیں صرف 65 ہزار کا فنڈ ملا جو قبرستان کے پشتوں کی تعمیر کے لیے تھا لیکن پشتوں کی تعمیر پر80 ہزار روپے خرچہ آیا اور 15 ہزارروپے انہیں جیب سے دینے پڑے۔
’میں نے پینتالیس ہزار روپے الیکشن مقابلے پر خرچ کیے، لیکن مجھے کسی بھی اجلاس کے لیے نہیں بلایاگیا۔ میرے پیسے بھی گئے اور عزت بھی، علاقے کی خواتین میرے پاس آتی ہیں اور گلہ کرتی ہیں کہ آپ کو ایمانداری سے ووٹ دیا، لیکن آپ نے ہمارے لیے کچھ نہیں کیا۔‘  
شانگلہ کی ایک خاتون ووٹر الفت بی بی نے خواتین کونسلرز کی کارکردگی کے متعلق استفسار پر’اردو نیوز‘ کو بتایا کہ بدقسمتی سے منتخب ہونے والی خواتین نے نہ تو خواتین کے حقوق کے لیے سرگرمی سے کام کیا اور نہ ہی ان کی جماعت نے ان کے سیاسی کردار کو بہتر بنانے کی کوشش کی۔
ان کا کہنا تھا کہ انتخابی عمل میں خواتین کی شرکت کو صرف اصلاحات اور سیاسی جماعتوں اور حکومت کی مخلصانہ کوششوں سے ہی بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
’خواتین کو اپنے ووٹ کی اہمیت اور حقوق کو سمجھنے کے لیے مزید تعلیم یافتہ ہونے کی ضرورت ہے جس کے لیے  سیاسی جماعتوں، کارکنوں اورحکومتی شعبوں کی طرف سے حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔‘

شیئر: