Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تعلیمی اداروں میں خواتین اور بچوں کی تصاویر اتارنا خلاف قانون

کسی کی نجی زندگی کو عام کرنا قانون شکنی ہے، پراسیکیوشن جنرل
سعودی پراسیکیوشن جنرل نے متنبہ کیا ہے کہ تعلیمی اداروں میں خواتین اور بچوں کی تصاویر اتارنا خلاف قانون ہے ۔ قید اور جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے ۔ 
 ویب نیوز عاجل نے پراسیکیوشن جنرل کی جانب سے جاری بیان میں کہا کہ کسی کی نجی زندگی کو عام کرنا قانون شکنی ہے۔ خاص کر غیر متعلق خواتین اور بچوں کی تصاویر لینا قابل دست اندازی پولیس ہے ۔
پراسیکیوشن جنرل نے مزید کہا کہ بعض افراد تعلیمی اداروں میں خواتین اور بچوں کی تصاویر اتا ر کر انہیں سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردیتے ہیں جو قابل دست اندازی پولیس ہے ۔ اس جرم پر قانون کے مطابق 5 برس قید اور 30 لاکھ ریال جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے ۔
 سزا کے بارے میں پراسیکیوشن نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سزاکا حکم عدالت جرم کی نوعیت دیکھتے ہوئے کرنے کی مجاز ہے ۔ مذکورہ بالا سزا ﺅں میں سے کوئی ایک یا دونوں بیک وقت دی جاسکتی ہیں ۔

 جرم پر 5 برس قید اور 30 لاکھ ریال جرمانہ ہوسکتا ہے 

غیر متعلقہ خواتین اور بچوں کی تصاویر لے کر انہیں اپنے پاس رکھنابھی اسی طرح کا جرم ہے جیسے انہیں سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیا گیا ہو۔ ایسے کرنے والوں پر سائبر کرائم کی شق عائد کی جاتی ہے ۔ متعلقہ ادارے کے تحقیقاتی آفیسر اس بات کے مجاز ہیں کہ وہ درخواست کنندہ کی شکایت پر ملزم کے ذاتی کمپیوٹر ، اسمارٹ فون یا دیگر اکاﺅنٹ کا تفصیلی جائزہ لے کر اپنی رپورٹ سے ادارے کو آگاہ کریں ۔ غیر متعلقہ خواتین اور بچوں کی تصاویر برآمد ہونے پر عدالت ملزم کو سزا ئیں دینے کی مجاز ہوتی ہے ۔ 
 پراسیکیوش جنرل کی جانب سے لوگوں کی نجی زندگی کو محفوظ بنانے کےلئے مختلف قانون سازی کی ہے ۔ سائبر کرائم کنٹرول یونٹ کو بھی فعال کرتے ہوئے لوگوں کی شہرت کو سوشل میڈیا پر خراب کرنے والوں کے خلاف بھی ٹھوس اقدامات کئے گئے ہیں ۔ 
پراسیکیوش جنرل درخواست دہندہ کی شکایت پر کیس کی تحقیقات کر کے عدالت کے سپر د کردیتی ہے جہاں کیس کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ صادر کیا جاتا ہے ۔ 
 

شیئر: