برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن مسلمان خواتین کے برقعہ پہننے کو ’ظالمانہ اور مضحکہ خیز‘ قرار دینے کی وجہ سے برطانوی پارلیمنٹ میں اپوزیشن ارکان اور سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے شدید تنقید کی زد میں ہیں۔
منگل کو برطانوی پارلیمنٹ میں بحث کے دوران سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے لیبر پارٹی کے ایک رکن پارلیمنٹ تنمن جیت سنگھ نے بورس جانسن کی جانب سے برطانوی اخبار ’دی ٹیلی گراف‘ میں مسلمان خواتین کے لیے استعمال کیے گئے ’توہین آمیز اور نسل پرستانہ‘ الفاظ پر بات کی تو ایوان میں گرما گرم بحث چھڑ گئی۔
تنمن جیت سنگھ دیسی نے اپنی تقریر میں برطانوی وزیراعظم سے حجاب کے متعلق اپنے الفاظ پر مسلمان برادری سے معافی مانگنے کا بھی مطالبہ کیا۔ انہوں نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر میں پگڑی، آپ کراس یا ایک مسلم خاتون برقعہ پہننے کا فیصلہ کرتی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسمبلی کے ارکان ہماری شکل و صورت کے حوالے سے توہین آمیز بیان دیں۔ وزیر اعظم کو اپنے الفاظ پر معافی مانگنی چاہیے۔‘
If you have ever experienced racism or discrimination, you can appreciate full well the hurt and pain felt by Muslim women, who were singled out by this divisive Prime Minister. It’s high time he apologised for his derogatory and racist remarks! 1/2 pic.twitter.com/t6G56coA3U
— Tanmanjeet Singh Dhesi MP (@TanDhesi) September 4, 2019
سکھ رکن پارلیمنٹ کی اس تقریر پر سوشل میڈیا صارفین بھی میدان میں اترے اور تنمن کی تقریر پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا۔
ایک صارف یحییٰ رشید نے ٹویٹ کی کہ ’اس طرح سے نسل پرستی اور توہین کے خلاف کھڑے ہوا جاتا ہے۔‘
This is how one stands against Racism and Bigotry...
#Respect #TanmanjeetSinghDhesi https://t.co/NroY5aWpfQ
— Yahya Rasheed (@yahyarasheed) September 5, 2019
ٹی سندھرے نامی صارف نے تنمن جیت کی تقریر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’پوری دنیا میں نفرت اور توہین کے اس ماحول میں ہمیں روزانہ ایسی اُمید کی ضرورت ہے۔ میرا امان تازہ ہو گیا۔‘
سکشی جوشی نے بھی سکھ رکن پالیمنٹ کی تقریر کو سراہتے ہوئے کہا کہ اگر کسی کو تعصب کا تجربہ نہیں بھی ہوا تو وہ بھی اس تقریر کو سراہ سکتا ہے۔
خیال رہے کہ برطانوی وزیر اعظم نے پانچ اگست کو ’ٹیلی گراف‘ میں لکھے گئے ایک مضمون میں کہا تھا کہ ’یہ ڈنمارک نے غلط کیا ہے۔ برقعہ پہننا اگرچہ ظالمانہ اور مضحکہ خیز عمل ہے مگر پھر بھی اس پر پابندی لگانے کا کوئی جواز نہیں۔‘
انہوں نے برقعہ پہننے والی خواتین کو ’لیٹر بکس‘ اور بنک لٹیروں سے بھی تشبیہ دی تھی۔
بورس جانسن کے ان الفاط پر تنمن جیت سنگھ کے علاوہ سابق برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے بھی ’نسل پرستانہ‘ الفاظ کے استعمال پر بورس جانسن سے معافی کا مطالبہ کیا جس پر بورس نے انکار کر دیا۔
سکھ رکن پارلیمنٹ کی جانب سے پارلیمنٹ میں بورس جانسن کے خلاف کی گئی اپنی تقریر سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے جانے کے بعد ٹوئٹر صارفین نے ان کے ذاتی اکاؤنٹ پر بھی اپنے ردعمل کا اظہار کیا۔
تنمن جیت کی ٹویٹ کے جواب میں روحان نامی صارف نے لکھا کہ ’صحیح کہا آپ نے۔ بورس جانسن نے اپنے ان الفاظ پر معذرت کرنے سے انکار کر دیا جن کی وجہ سے نفرت انگیز جرائم میں 375 گنا اضافہ ہوا تھا۔‘
Well said. Boris Johnson refuses to apologise for comments that led to a 375% increase in hate crimes. Everyone must stand together with minorities and speak up, the culture war they’re planning for will only get worse with these bigots weaponising hate further
— Rohan (@Chops8592) September 4, 2019