Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تلوار رقص کو فرمانرواؤں نے قابل فخر بنایا

شاہ سلمان بن عبدالعزیز تلواروں کے رقص کے ماہر مانے جاتے ہیں۔ فوٹو:الشرق الاوسط
سعودی عرب میں تلواروں کا رقص عام شہریوں سے لے کر ملک کی اعلیٰ قیادت تک سب کو پسند ہے۔
اس رقص کو ’العرضہ  السعودیہ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے جو سعودی عرب کا قومی ورثہ ہے۔ یہ رقص 1932ء میں سعودی عرب کے قیام سے لے کر اب تک ملک کے تمام علاقوں میں قومی تقریبات اور پروگراموں کا اٹوٹ حصہ بن چکا ہے۔
الشرق الاوسط کے مطابق سعودی عرب میں کسی بھی قومی تقریب کا اختتام تلواروں کے رقص سے کیا جاتا ہے۔ سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیز سے لے کر تمام سعودی حکمران تلواروں کا رقص بہت شان بان سے کرتے رہے ہیں۔
سعودی عرب کے موجودہ حکمراں شاہ سلمان بن عبدالعزیز تلواروں کے رقص کے ماہر مانے جاتے ہیں۔ جب وہ گورنر ریاض تھے تب بھی تلواروں کا رقص کیا کرتے تھے اور اب جبکہ سعود ی عرب کے سربراہ اعلیٰ ہونے کے باوجود وہ یہ رقص اُسی جوش و جذبے اور ولولے سے کرتے ہیں۔

شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور چینی صدر شی جن پنگ ایک افتتاحی تقریب میں تلوار رقص کرتے ہوئے۔ فوٹو: اے ایف پی

سعودی حکمرانوں اور شاہی خاندان کی تصاویر کی البم اس کا عملی ثبوت ہیں۔
عرب دنیا کے نامور مصنف عباس محمود العقاد نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’مع عاھل الجزیرہ العربیہ‘  (جزیرہ عرب کے فرمانروا کے ساتھ) میں جہاں بانی مملکت کی زندگی کے مختلف واقعات کا تذکرہ کیا ہے وہیں انہوں نے تلواروں کے رقص سے  شاہ عبدالعزیز کے شغف کا تذکرہ خاص طور پر کیا ہے۔
العقاد لکھتے ہیں کہ تلواروں کا رقص شاہ عبدالعزیز کا محبوب ترین مشغلہ تھا۔ یہ رقص بڑا ہیبت ناک اور ساتھ ہی ساتھ انتہائی متوازن بھی ہے۔ یہ رقص عزم و ہمت کا ولولہ پیدا کرتا ہے۔ یہ ایمان کی حرارت بھڑکاتا ہے۔ شاہ عبدالعزیز تلواروں کے رقص کے دوران گائے جانے والے قومی نغمے انتہائی توجہ سے سنتے تھے۔
دیکھنے والے یہ منظر دیکھ کر حیرت زدہ رہ جاتے کہ شاہ عبدالعزیز تلواروں کا رقص دیکھتے ہی دیکھتے خود اس کا حصہ بن جاتے۔ گھڑ سواروں کے ساتھ مل کر خود بھی تلوار کا رقص کرنے لگتے۔ اس سے گھڑ سواروں کا جوش آسمان سے باتیں کرنے لگتا کہ ان کا قائد بھی ان کے ساتھ رقص میں شامل ہوگیا ہے۔
تلواروں کا سعودی رقص نجد کے علاقے میں خاص طور پر کیا جاتا ہے۔ حال ہی میں یونیسکو نے اسے سعودی عرب کے عالمی ورثے کی فہرست میں بھی شامل کرلیا ہے۔ تلواروں کا رقص سعودی سکولوں میں ایک مضمون کے طور پر بھی درج کرلیا گیا ہے۔ اس کے ذریعے نئی نسل کو تلواروں کے رقص کے کلچر سے آگاہ کیا جارہا ہے اور آباؤ اجداد کے اس ورثے کی حفاظت کا سبق دیا جارہا ہے۔

العقاد کے مطابق تلواروں کا رقص شاہ عبدالعزیز کا محبوب ترین مشغلہ تھا۔

سعودی شاعر اور مورخ عبداللہ بن خمیس  نے ایک کتاب تصنیف کی ہے جس کا نام ’اھازیج الحرب‘  ( جنگی گیت) رکھا ہے۔ اس میں وہ بتاتے ہیں کہ تلواروں کے رقص کے موقع پر جنگی قصیدہ پڑھا جاتا ہے۔ اس کے مصرعے10سے زیادہ نہیں ہوتے۔ شروعات  اعلان جنگ سے ہوتی ہے پھر دشمن کو للکارا جاتا ہے۔ اس کے بعد اس کی شکست کا منظر بیان کیا جاتا ہے۔ آخر میں جنگجوؤں کی قوت اور شجاعت کو اجاگر کیا جاتا ہے۔
تلوار بردار ایک یا دو صفوں میں ایک دوسرے کے بازو سے بازو ملا کر کھڑے  ہوتے ہیں۔ درمیان میں سعودی پرچم بردار ہوتا ہے۔ جنگجو تلواروں سے پرچم اوپر اٹھاتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ پرجوش گیت ایک خاص دھن کے ساتھ گائے جاتے ہیں۔ جنگجو اپنے قائد کے لیے تابعداری اور فرمانبرداری کا اظہار کرتا ہے۔
تلواروں کے رقص کا مقصد صف بستہ جوانوں کو متحد کرنا، انہیں منظم کرنا، شائقین کے جذبات کو مشتعل کرنا اور ان سب کو کسی ایک ہدف کے لیے تن من دھن کی قربانی دینے پر آمادہ کرنا ہوتا ہے۔
تلواروں کے رقص میں نہ صرف یہ کہ طبلے کی آوازیں گونجتی ہیں بلکہ رقص کرنے والوں کے ہاتھوں میں چمکدار تلواریں بھی بلند ہوتی نظر آتی ہیں۔
تلواروں کا رقص کرنے والے مخصوص لباس استعمال کرتے ہیں۔ تلواروں کا رقص قائد اعلیٰ کی شمولیت کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔
واٹس ایپ پر سعودی عرب کی خبروں کے لیے ”اردو نیوز“ گروپ جوائن کریں

شیئر: