Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعدیہ احمد کا کالم: صفائی نصف ایمان ہے

ایک صفائی کے برش سے اتنا ڈر کیوں کہ کبھی چھٹی کا نام نہیں لیا؟ 
ایک اعتراف کرنا تھا۔ پاکستان سے رخصت ہوتے ہوئے سب نے ہمیں بہت ڈرایا تھا کہ وہاں زندگی بہت کٹھن ہے۔ سب کام خود کرنے پڑتے ہیں۔ وہاں کھانا بنانا بھی جوئے شیر لگتا تھا لیکن ملک سے باہر تو دنیا ہی الگ ہوتی ہے۔
بازار سے سب سامان خود لانا پڑتا ہے۔ گراسری سٹور سے بھاری بھرکم تھیلے اپنے ہی کاندھوں پر لاد کر لانے پڑتے ہیں۔ پیاز اور لہسن کو خود ہی ٹوکری میں لگانا پڑتا ہے۔ مرغی اور بکرے کے گوشت کے پیکٹ بھی خود ہی بنانے پڑتے ہیں۔ کوئی کپڑے استری کر کے دینے والا نہیں ہوتا اور تو اور اپنا باتھ روم بھی خود ہی صاف کرنا پڑتا ہے۔ جانا مجبوری تھی ورنہ یہ سب سوچ کر بھی جھرجھری سی آ جاتی تھی۔ 
لیکن خدا کی مرضی یہی تھی کہ کئی گھنٹوں ہوا میں معلق رہ کر اک نئی دنیا کو سدھاریں۔ جہاں کوئی اپنا ہم رنگ و ہم نسل بھی نہ دکھتا ہو اس دیس کو اپنا گھر جانیں اور مانیں۔ ہونی کو کون ٹال سکا ہے۔
ہوائی اڈے پر اترتے ہی معلوم ہو گیا تھا کہ یہ شاہین کا جہاں ہے۔ اپنے ہر قسم کے نخرے اور تمکنت کو بالائے طاق رکھنا ہو گا۔ چند دن میں گھر بھی مل گیا اور بندہ مزدور کے تلخ اوقات کا آغاز بھی ہو گیا۔ واقعی ہر قسم کے کام خود ہی کرنے تھے۔ باقی سب تو جیسے تیسے سینہ پیٹ کر سہہ لیا لیکن صفائی ستھرائی پر خون کے آنسو بہانا ایک اور کالم مانگتا ہے۔

ہم صفائی کرنے والوں کو اس قدر حقیر کیوں جانتے ہیں۔ (فائل فوٹو اے ایف پی)

لیکن قصہ مختصر یہی کہ جی وہی فرصت کے رات دن ڈھونڈتا تھا۔ خاص طور پر بیت الخلا کی صفائی تو بہت ہی کٹھن راہ تھی۔ وطن عزیز اب اور بھی عزیز ہو گیا کہ وہاں کبھی یہ مشکل راہیں نہ چلی تھیں۔ 
خیر اب تو بہت کچھ بدل گیا ہے۔ وہ سب جو سکول کالج کے استاد نہ سکھا پائے پردیس سکھا گیا۔ اب کچھ مشکل نہیں لگتا۔ ہر کام یوں ہی روزمرہ کی بات ہے جیسے دانت برش کرنا اور کام پر جانا۔ عادت ہو جاتی ہے۔
اب جب سب نارمل لگنے لگا ہے تو یہ خیال بھی آتا ہے کہ آخر اپنے ہی گھر کے کام خود کرنے سے ہمیں ڈرایا کیوں جاتا تھا۔ ہمیں بچپن میں یہ کیوں کہا جاتا تھا کہ اگر نہیں پڑھو گی تو باتھ روم صاف کرنے پڑیں گے؟ چھوٹے بھائی نے سکول جانے سے انکار کیا تو امی نے اسے فلش صاف کرنے والا سفید گول برش کیوں تھما دیا تھا کہ اب تم یہی کام کرو گے؟ وہ ننھا سا بھیا جس کے کھلونے بھی پستولیں اور بندوقیں ہوا کرتے تھے ایک صفائی کے برش سے اتنا کیوں ڈر گیا کہ کبھی چھٹی کا نام نہیں لیا؟ 
یہ وہی زمانہ تھا جب ہمارے گھر ایک مسیحی خاتون اماں جینا صفائی ستھرائی کا کام کرنے آتی تھیں۔ عمر کی زیادہ تھیں لیکن اپنے کام میں بہت مشاق تھیں۔ ہم بہن بھائی ان کے بہت قریب تھے۔ کھانا بھی ہمارے ہی گھر کھایا کرتی تھیں لیکن تب کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ ان کے برتن مختلف کیوں ہیں؟

کوئی بچہ اپنی ماں سے یہ نہیں پوچھتا کہ وہ اس کی کیا لگتی ہے۔ (فائل فوٹو اے ایف پی)

ایک دفعہ ہمارے ماموں زاد بھائی جو بے حد شریر واقع ہوئے تھے ہمارے گھر آئے۔ انہوں نے اس بچے کے لیے دس روپے کا انعام مقرر کیا جو اماں جینا کے سٹیل کے گلاس میں پانی پیے گا۔ کوئی نہ مانا۔ 
اماں سے پیار بھی تھا لیکن اماں کا گلاس شجر ممنوعہ تھا، حقیر تھا۔ ان کے ساتھ کھانا پینا ہماری شان کے خلاف تھا۔ کیوں تھا؟ یہ سوال کبھی ذہن میں نہیں آیا تھا۔ 
کہا جاتا ہے کہ زندگی کا ہر دن آخری نہیں بلکہ پہلا سمجھ کر گزارنا چاہیے کہ بچپن کا تجسس زندگی کی سب سے بڑی خوبصورتی ہے۔ ایک ننھے بچے کے لیے یہ تجسس ہر چیز میں چھپا ہوتا ہے۔ اسی لیے ہر چیز پر سوال کیے جاتا ہے۔ ایک ہی سوال کو بار بار دہرائے جاتا ہے۔ نہ جواب کے نتیجے کا ڈر ہوتا ہے اور نہ ہی زندگی سے بیزاری جنم لی ہوتی ہے لیکن بہت سے سوال بچے بھی نہیں پوچھتے۔
کوئی بچہ اپنی ماں سے یہ نہیں پوچھتا کہ وہ اس کی کیا لگتی ہے۔ دودھ کی بوتل کی افادیت دریافت کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ کچھ باتیں اس قدر مسلمہ حقیقت بن جاتی ہیں کہ بچے بھی ان پر استفسار نہیں کرتے۔ ہمارا اور اماں جینا کے اچھوت گلاس کا بھی یہی معاملہ تھا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ سوال جو تب ذہن میں جنم نہ لے پائے اب اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ ہمارے سامنے پھنپھنا کر کھڑے ہیں۔
اب ہمیں رہ رہ کر خیال آتا ہے کہ اماں جینا کا گلاس علیحدہ کیوں تھا؟ ہمارا ننھا بھائی فلش صاف کرنے والے سفید گول برش سے اتنا ڈرتا کیوں تھا کہ کہیں اٹھانا نہ پڑ جائے؟ اس کو وہی ڈر کھلونا بندوقوں سے کیوں نہیں لگتا تھا؟ ہمیں پاکستان سے آتے ہوئے صفائی کے کام کا ڈراوا کیوں دیا گیا تھا؟ آخر صفائی کرنا اس قدر قبیح فعل کیوں ہے؟ اگر صفائی نصف ایمان ہے تو صفائی کرنے والوں کو غلیظ کیوں سمجھا جاتا ہے؟ 
ابھی چند دن پہلے ایک خاکروب رفیق مسیح لانڈھی میں صفائی کرتے ہوئے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا کیونکہ وہاں حفاظت کا کوئی خاطر خواہ انتظام ہی نہیں تھا۔ اس پر نہ کوئی واویلا ہوا نہ کسی کا دل پگھلا۔ آخر ایک خاکروب کی جان اس قدر ارزاں کیوں تھی کہ اسے بنیادی سیفٹی کے بغیر ہی اس قدر خطرناک کام پر زبردستی روانہ کر دیا گیا؟ کیا یہ پیشہ اس قدر حقیر ہے کہ ان کی جان کی حفاظت سے زیادہ اہم سیوریج لائن کی صفائی ہے؟ 

شاید مغرب آ کر دماغ سٹک گیا ہے جہاں کوئی پیشہ حقیر نہیں۔ (فائل فوٹو اے ایف پی)

پتہ نہیں یہ سب سوالات اب کیوں دماغ میں کلبلانے لگے ہیں۔ اب آ کر یہ احساس کیوں ہو گیا ہے کہ کوئی پیشہ انسان کی سوچ سے زیادہ غلیظ نہیں ہو سکتا؟ ہم صفائی کرنے والوں کو اس قدر حقیر کیوں جانتے ہیں کہ اپنے گھر کی صفائی خود کرنے پر بھی ڈر جاتے ہیں کہ کہیں ان میں نہ ملنے لگیں؟ حالانکہ بچپن اب میلوں اور سمندروں دور رہ گیا ہے لیکن یہ سوالات نجانے اب کیوں دماغ کی دہی بنانے لگے ہیں۔
اب رہ رہ کر احساس ہوتا ہے کہ اماں جینا کے گلاس میں پانی نہ پی کر بہت بڑا پاپ کیا۔ آپ نے اردگرد اپنے ہی جیسے انسانوں کو حقیر جان کر بہت رذیل حرکت کی۔ کاش کہ وقت کا دھارا واپس موڑ پائیں۔
شاید مغرب آ کر دماغ سٹک گیا ہے جہاں کوئی پیشہ حقیر نہیں اور کوئی کام کرنا کسی کے لیے بھی بڑی بات نہیں۔ 
چند ہی مہینوں میں وطن کا چکر لگانا ہے۔ چلیے آپ کی تو خیر ہے۔ یہ سوال وہاں کر دیے تو بہت گڑبڑ ہو جائے گی۔ اپنے چیختے چلاتے ضمیر کو تھپک کر سلانا ہو گا ورنہ اگر ادھر بھی اماں جینا کے گلاس میں پانی پی لیا یا اپنا بیت الخلا خود صاف کرنے کھڑے ہو گئے تو لوگ کیا کہیں گے؟ چھی چھی۔۔۔ استغفراللہ!

شیئر: