Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’انڈیا میں مظلوموں کے لیے کھڑے ہوتے ہو تو آپ مجرم ہو‘

مقدمے میں مشہور فلم ساز منی رتنم اور دیگر اہم شخصیات شامل ہیں۔ فوٹو: فلم کمپینئین
انڈیا کی تقریبا 50 اہم شخصیات کے خلاف جن میں ماہر تعلیم، فلم ساز، اداکار اور دیگر فنکار شامل ہیں شمال مشرقی ریاست کے شہر مظفرپور میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔
ان نمائندہ شخصیات میں تاریخ دان رام چندر گوہا، فلم ساز منی رتنم، انوراگ کشیپ اور اداکارہ اپرنا سین شامل ہیں۔ انھوں نے جولائی کے مہینے میں وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک کھلا خط لکھا تھا جس میں انھوں نے ملک میں مسلمانوں اور دلتوں کے خلاف ہجوم کے ہاتھوں قتل کو روکنے کی اپیل کی تھی۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق اس ایف آئی آر میں ملک سے بغاوت، اشتعال انگیزی، مذہبی جذبات کو مجروح کرنے اور امن و امان میں خلل پیدا کرنے کی تعزیرات ہند کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
یہ ایف آئی آر دو ماہ قبل مقامی وکیل سدھیر کمار اوجھا کی جانب سے دائر درخواست پر چیف جوڈیشل مجسٹریٹ (سی جے ایم) سوریہ کانت تیواری کے حکم کے بعد جمعرات تین اکتوبر کو درج کی گئی ہے۔

اداکارہ اپرنا سین اور دیگر افراد نے مودی کو مسلمانوں اور دلتوں کے خلاف مظالم پر خط لکھا تھا۔ فوٹو: آؤٹ لک انڈیا

اوجھا کے مطابق ان کی درخواست چیف جسٹس نے 20 اگست کو سماعت کے لیے قبول کر لی تھی۔
اوجھا نے کہا ہے کہ انھوں نے تقریبا 50 افراد کے خلاف اپیل دائر کی تھی کہ انہوں نے مبینہ طور پر ’ملک کی شبیہ (امیج) کو خراب کیا ہے، وزیر اعظم کی متاثر کن کارکردگی کو نظر انداز کیا ہے اور اس کے علاوہ علیحدگی پسند رجحان کی حمایت کی ہے۔‘
قومی انعام یافتہ فلم ڈائریکٹر ادور گوپال کرشنن کا نام بھی اس ایف آئی آر میں شامل ہے۔ انہوں نے اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ کوئی بھی صرف اس لیے غدار نہیں ہوتا ہے کہ وہ حکمران جماعت سے متفق نہیں ہے۔
جبکہ کانگریس کے اہم رہنما اور نامور وکیل کپل سبل نے ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ 'میرا ملک بھٹک گیا ہے۔ حیرت ہے کہ کس کے خلاف واقعی بغاوت کا مقدمہ چلنا چاہیے؟ شیام بینیگل، آر گوہا، شبھا مدگل، منی رتنم جیسے ضمیر کے رکھوالوں کے لیے تو قطعاً نہیں۔ حیرت میں ہوں کہ کس کے خلاف مقدمہ چلنا چاہیے؟'
حزب اختلاف کی اہم پارٹی کانگریس نے اس خبر کو ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بی جے پی ہمارے ملک کو کیا بنا رہی ہے۔ مودی کے 'نیو انڈیا' میں اگر آپ مظلوموں کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو آپ کو مجرم کہا جاتا ہے۔‘
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے طالب علم عمر خالد نے لکھا کہ 'ہجوم میں تشدد کرنے والوں کو مرکزی وزیر ہار پہناتے ہیں اور 49 انڈین شہری جو وزیر اعظم مودی کو ’ماب لنچنگ‘ کے متعلق خط لکھتے ہیں ان پر غداری کا مقدمہ دائر کیا جاتا ہے۔ اس قسم کے ہر عمل سے انڈیا کی جمہوریت کو نقصان پہنچتا ہے۔‘
ان ٹویٹس کے خلاف بڑے پیمانے پر ٹویٹس کی جا رہی ہیں جس میں کہا جا رہا ہے کہ ’جو ہوا وہ ٹھیک ہوا۔‘

شیئر: