Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’میڈیا شخصیت نے مجھ پر جنسی تشدد کیا‘

جامی نے کہا کہ ان کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے والا شخص ان کا قریبی دوست تھا۔ فوٹو: فوکس پی کے
پاکستانی فلم ساز جامی آزاد نے جنسی ہراسانی کے خلاف دنیا بھر میں چلنے والی ’می ٹو‘ مہم کی حمایت کرتے ہوئے ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ کئی سال قبل انہیں پاکستانی میڈیا کے ایک با اثر شخص نے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔  
جامی نے لکھا ہے کہ وہ ’می ٹو‘ مہم کی شدت سے حمایت اسی لیے کرتے ہیں کیونکہ انہیں اس بات کا خوب اندازہ ہے کہ جنسی تشدد کا نشانہ بنائے جانے والے شخص کو کیسا محسوس ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بات کو 13 سال گزر گئے ہیں اور وہ اب بھی اپنے آپ کو کوستے ہیں کہ انہوں نے ’اس شخص کی آنکھیں کیوں نہیں نکال دیں‘۔
واضح رہے کہ جامی نے متعدد مقبول فلموں میں کام کیا ہے، جن میں ’مور‘، ’زندہ بھاگ‘ اور ’O21‘ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے گانوں کی ویڈیوز بھی بنائی ہیں جن میں سٹرنگز اور فیوژن بینڈز کے علاوہ عاطف اسلم، علی عظمت اور حدیقہ کیانی کے گانے شامل ہیں۔ 
جامی نے کہا کہ ان کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے والا شخص ان کا قریبی دوست تھا، جس کے لیے وہ کام کر رہے تھے۔
’اسی لیے مجھے سمجھ نہیں آیا یا مجھے یقین ہی نہیں ہوا کہ ہو کیا رہا ہے۔ میں نے اپنے کچھ قریبی دوستوں کو بتایا لیکن کسی نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ میں نے انہیں اس شخص کا نام بھی بتایا لیکن سب نے سمجھا کہ میں کوئی مسخرہ ہوں۔‘
جامی کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے بعد انہوں نے چھ مہینے کراچی کے آغا خان ہسپتال میں گزارے اور پھر کچھ مہینوں کے لیے پاکستان چھوڑ کر چلے گئے۔
’یہ شخص میرے والد کی تدفین پر بھی آیا تھا اور اپنے والد کی وفات پر رونے کے بجائے میں اپنے ہی گھر میں چھپا ہوا تھا، اور اپنی والدہ کو کہہ رہا تھا کہ اس شخص کو اندر آنے سے روکیں۔‘
جامی نے اپنے ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ آج تک ان میں اتنی ہمت نہیں بن پائی ہے کہ وہ اس شخص کا نام لے سکیں۔
’یہ بہت مشکل ہے، میں جانتا ہوں میرے اپنے دوست ہی میرا مذاق اڑائیں گے۔ ہم سب دیسی ایسا کرتے ہیں۔‘
حال ہی میں جنسی ہراس کے الزام پر لاہور کے ایک کالج میں ایک پروفیسر کی خودکشی کے واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے جامی نے لکھا کہ ایسے ایک واقعے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر متاثرہ شخص جھوٹا ہے۔ ’مجھے اس بات پر غصہ ہے کہ لوگ متاثرین کو اور اس مہم کو نشانہ بنا رہے ہیں اسی لیے آج میں 13 سال بعد یہ کہنے کے لیے یہاں آیا ہوں کہ 99.99 فیصد متاثرہ افراد ہمیشہ سچ بول رہے ہوتے ہیں۔‘
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: