Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان یونیورسٹی: مزید چار اہلکار معطل

بلوچستان یونیورسٹی میں جنسی ہراسیت کے معاملے میں تحقیقات کے دوران انتظامیہ نے مزید چار ملازمین کو معطل کردیا ہے اور یونیورسٹی میں تعینات خواتین سمیت 100 سے زائد انٹرنیز کو بھی برطرف کردیا ہے۔
دوسری جانب ہراسیت کی تحقیقات کے لیے قائم بلوچستان اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں خاتون رکن اسمبلی ماہ جبین شیران کو چیئرپرسن منتخب کرلیا گیا۔ دس رکنی کمیٹی حکومتی اور اپوزیشن ارکان شامل ہیں۔ کمیٹی تحقیقات کر کے اپنی سفارشات اسمبلی میں پیش کرے گی۔
واضح رہے کہ گذشتہ دنوں بلوچستان یونیورسٹی میں طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کی شکایات سامنے آئی تھیں۔ یونیورسٹی انتظامیہ کے بعض اہلکاروں اور اساتذہ پر الزامات لگے تھے کہ وہ یونیورسٹی کی طالبات کو ہراساں کر رہے تھے اور خفیہ کیمروں سے ان کی ویڈیوز بنا کر ان کو بلیک میل بھی کر رہے تھے۔
بلوچستان ہائی کورٹ کے حکم پر ایف آئی اے نے جنسی ہراسیت کی شکایات کی تحقیقات شروع کر دی تھیں، جبکہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال ہراسیت کی شکایات کی تحقیقات مکمل ہونے تک اپنے عہدے سے دستبردار ہو گئے تھے۔ 
بلوچستان یونیورسٹی کے قائم مقام وائس چانسلر پروفیسر محمد انور پانیزئی نے جنسی ہراسیت اور طالبات کو بلیک میل کرنے کے الزامات میں چار ملازمین کو معطل کرنے کا اعلان یونیورسٹی کے اندر احتجاج کرنے والی طالبات سے مذاکرات کے دوران کیا۔ 
قائم مقام وائس چانسلر نے کہا ہے کہ ’ایف آئی اے کی ابتدائی رپورٹ میں ان چار ملازمین پر لگنے والے الزامات کسی حد تک ٹھیک تھے اس لیے ہم نے انہیں فوری طور پر معطل کردیا ہے۔
پروفیسر محمد انور پانیزئی کے مطابق ایف آئی اے کی تفصیلی رپورٹ 29 اکتوبر کو سامنے آئے گی۔ رپورٹ میں جسے بھی ذمہ دار ٹھہرایا گیا اس کے خلاف فوری کارروائی کی جائے گی۔ 

قائم مقام وائس چانسلر کے مطابق ایف آئی اے کی تفصیلی رپورٹ 29 اکتوبر کو سامنے آئے گی، فوٹو: سوشل میڈیا

یونیورسٹی انتظامیہ کے مطابق منگل کو معطل کیے گئے ملازمین میں یونیورسٹی کا سابق چیف سکیورٹی افسر ،ایک اسسٹنٹ سکیورٹی افسر، وائس چانسلر کے سابق سٹاف افسر اور ٹرانسپورٹ برانچ کا ایک اہلکار شامل ہیں۔
ان اہلکاروں کے نام جنسی ہراسیت کے سکینڈل میں سامنے آئے تھے اور انہیں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے ) نے بھی شامل تفتیش کیا ہے۔ 
 خیال رہے کہ اس سے قبل گذشتہ ہفتے یونیورسٹی کے گریجوایٹ سٹڈیز آفس کے ایک پروفیسر کو بھی جنسی ہراسیت کے الزام میں معطل کیا گیا تھا۔
بلوچستان کی سب سے بڑی یونیورسٹی میں جنسی ہراسانی کا یہ سکینڈل گذشتہ ہفتے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے ) کی جانب سے تحقیقات کے بعد سامنے آیا تھا جس میں معلوم ہوا تھا کہ یونیورسٹی انتظامیہ کے بعض اہلکار خفیہ کیمروں کے ذریعے طلبہ کی ویڈیوز بنا کر انہیں جنسی طور پر ہراساں اور بلیک میل کرنے میں ملوث ہیں۔ 

 

سکینڈل کے سامنے آنے کے بعد طالبات کی تنظیموں کی جانب سے نہ صرف بلوچستان یونیورسٹی بلکہ صوبے اور ملک کی دیگر یونیورسٹیوں میں بھی احتجاج کیا گیا جس کے باعث یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال اپنا عہدہ چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ 
 وائس چانسلر کے عہدے سے دستبردار ہونے کے باوجود طالبات کی تنظیموں نے احتجاج جاری رکھا اور منگل کو بھی یونیورسٹی کے اندر دھرنا دیا۔ مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ جنسی ہراسیت میں ملوث تمام اہلکاروں کو برطرف کر کے انہیں گرفتار کیا جائے۔
قائم مقام وائس چانسلر پروفیسر محمد انور پانیزئی کی جانب سے یونیورسٹی کے چار ملازمین کو معطل کرنے کے اعلان کے بعد طالبات کی تنظیموں نے اپنا احتجاج ختم کر دیا۔ پروفیسر محمد انور پانیزئی نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے یقین ہے کہ اب آپ بہت محفوظ ہاتھوں میں ہیں، مجرموں یا ملزموں کو فارغ کر دیا گیا ہے اور دو چار دنوں میں آپ کو مزید پرسکون پیغامات ملیں گے۔
انہوں نے طالبات کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ’ میں بہت شرمندہ ہوں گا اگر دو چار دنوں میں آپ کے حق میں بہت سخت فیصلے نہ کر سکا۔

جنسی ہراسیت کا یہ سکینڈل ایف آئی اے کی تحقیقات کے بعد سامنے آیا تھا، فوٹو: اردو نیوز

قائم مقام وائس چانسلر نے مزید کہا کہ ’آج کے بعد کیمروں کا دھندہ بند ہو گا اورایسا کاروبار کرنے والو ں کو نہیں چھوڑا جائے گا۔ ہم مرے نہیں بلکہ ہم زندہ قوم ہیں ۔ یونیورسٹی میں تمام سرگرمیاں بحال ہوں گی۔ اس میں طلبہ کے تعاون کی فوری ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ ایف آئی اے کے پاس ہے۔ ملوث افراد کے خلاف سزا بھی وہی عدالت میں تجویز کرے گی۔ ہم نے ملزمان کو معطل کر دیا ہے، اب انہیں گرفتار کیا جاتا ہے یا کوئی اور کارروائی کی جاتی ہے یہ یونیورسٹی کے لیے کوئی پریشانی کا باعث نہیں ہو گا۔ ہم نے اپنی جانب سے ملزمان کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا ہے اور نظام کے ذریعے انہیں ہٹائیں گے ۔
قائم مقام وائس چانسلر کے مطابق 29 اکتوبر کو یونیورسٹی کے سنڈیڈکیٹ اور اکیڈمک کونسل کے انتخابات کرائے جائیں گے۔ 
دوسری جانب قائم مقام وائس چانسلر نے یونیورسٹی میں تعینات 100 سے زائد انٹرنیز کو بھی برطرف کر دیا ہے۔ یونیورسٹی کے رجسٹرار کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹیفکیشن کے مطابق یونیورسٹی میں تعینات تمام تدریسی اورغیر تدریسی انٹرنیز کو فوری طور پر برطرف ک ردیا گیا ہے۔ 
یونیورسٹی انتظامیہ کے ایک سینیئر عہدے دار نے اردو نیوز کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ برطرف کیے گئے انٹرنیز میں خواتین بھی شامل ہیں۔ یہ کارروائی یونیورسٹی میں حالیہ سکینڈل کے پیش نظر کی گئی ہے۔ 
ان کے بقول برطرف کیے گئے انٹرنیز کی تنخواہوں کی مد میں سالانہ ڈھائی کروڑ روپے جاری کیے جاتے تھے ۔ان انٹرنیز کی تعیناتیوں پر میرٹ کی پامالی اور کرپشن کے الزامات لگائے جارہے تھے۔ 
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: