Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

البغدادی کے بعد داعش کیا سوچ رہی ہے؟

امریکہ کی جانب سے داعش کے سربراہ کے سر کی قیمت 25 ملین ڈالرز رکھی تھی (فوٹو:روئٹرز)
شام کے علاقے ادلیب میں امریکی فوجی کارروائی میں شدت پسند تنظیم کے سربراہ ابو بکر البغدادی کی ہلاکت کے بعد داعش کے شدت پسند اپنے سربراہ کی موت کی تصدیق کرنے کے لیے تیار نہیں اور انہوں نے اس خبر پر خاموشی اختیار کی ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق داعش کے شدت پسند اپنے سربراہ ابو بکر البغدادی کی جگہ اگلا جانشین لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
امریکی صدر کی جانب سے شام میں آپریشن کے دوران ابوبکر البغدادی کی ہلاکت کا اعلان کیے جانے کے بعد ابھی تک داعش نے اپنے ٹیلی گرام چینل عماق پر اپنے سربراہ کے بارے میں کوئی باقاعدہ بیان نہیں دیا۔
داعش کے عماق چینل پر معمول کی خبریں دی جارہی ہیں۔ گذشتہ اتوار سے اب تک اس ویب سائٹ پر شام، مصر، افغانستان اور عراق میں 30 کے قریب حملوں کے دعوؤں کی خبریں شائع ہوئی ہیں۔

اس سیٹلائٹ تصویر میں شام کا بریشا گاؤں دکھایا گیا ہے جہاں داعش کے سربراہ کو نشانہ بنایا گیا (فوٹو:روئٹرز)

تاہم ٹیلی گرام کا ایک اکاؤنٹ جو داعش سے منسلک ہے، نے اپنے حمایتیوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ ہلاکت کی خبر پر یقین نہ کریں۔
اس کے علاوہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر بھی داعش کے شدت پسندوں کے حامیوں میں ابوبکر البغدادی کی ہلاکت پر اس طرح کی بحث نہیں ہوئی جیسے انہوں نے شدت پسند تنظیم القاعدہ کے سربراہ اور دوسرے شدت پسندوں کے بارے میں کی تھی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق البغدادی کی ہلاکت کی خبر پر داعش کی باقی ماندہ قیادت صدمے میں تھی اور وہ کوشش کر رہے ہیں کہ گروپ کو اکھٹا رکھا جائے تاکہ ایک نئے سربراہ پر متفق ہوا جا سکے۔
عراق میں شدت پسند تنظیموں کی کارروائیوں پر نظر رکھنے والے ماہر ہشام الہاشمی سمجھتے ہیں کہ داعش قیادت کے بحران کا شکار ہوگئی ہے، شدت پسند چاہیں گے کہ ابوبکر البغدادی کی ہلاکت کی خبر دینے سے پہلے وہ اپنا نیا سربراہ بھی منتخب کریں۔
گذشتہ اتوار کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ٹوئٹر پر لکھا تھا کہ ابو بکر البغدادی کے کئی ساتھی بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ جبکہ منگل کو ٹویٹ کرتے ہوئے انہوں نے کہا اس بات کا امکان ہے کہ امریکی فوج نے اس شخص کو بھی ہلاک کر دیا ہے جو ابو بکر البغدادی کا جانشین تھا۔

امریکی اعلیٰ حکام نے ایک پریس کانفرنس میں ابو بکر البغدادی کی ہلاکت کا اعلان کیا (فوٹو: اے ایف پی)

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ واضح نہیں کیا کہ کس شخص کو مارا گیا ہے تاہم سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک سینئر افسر نے داعش کے ترجمان اور داعش کے اعلیٰ سطح کے کمانڈر ابو الحسن المہاجر کے ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔
برطانیہ میں تحقیق کار ایمن التمیمی کہتے ہیں کہ القاعدہ کو اپنے سربراہ کی ہلاکت کی خبر دینے میں چھ ہفتے لگے۔
ان کے مطابق ’اگر داعش کے شدت پسند اپنے نئے سربراہ پر متفق ہوتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ داعش اپنی ہفتہ وار خبروں میں ابوبکر البغدادی کی ہلاکت کی خبر دیں۔‘
ان کے مطابق حج عبداللہ جو بغداد کے ڈپٹی تھے، ان کو سربراہ مقرر کیا جائے۔
ایمن التمیمی کہتے ہیں کہ ان کی ہلاکت پر اتنا سوگ نہیں منایا گیا جتنا شدت پسندوں کے مخالفین بغدادی کی ہلاکت پر خوش ہوئے کیونکہ ان کی نظر میں ظلم و ستم سے جہاد کا پروجیکٹ متاثر ہوا ہے۔
شدت پسند تنظیم ’حیات تحریر الشام‘ نے ابو بکر البغدادی کی ہلاکت پر خوشی منائی ہے۔
تنظیم کو اس بات کا افسوس ہے کہ انہوں نے نہیں بلکہ امریکی فوجیوں نے ابوبکر بغدادی کو مارا ہے۔

عراق کے انسداد دہشت گردی کے اہلکاروں نے البغدادی کی ہلاکت پر خوشی منائی تھی (فوٹو:اے ایف پی)

دوسری جانب داعش کے برعکس القاعدہ کے حمایتیوں نے ابو بکر البغدادی کی ہلاکت کو تسلیم کیا ہے۔
ابو بکر البغدادی کو مارنے کے لیے امریکی فوج نے داعش کے سربراہ ابو بکر البغدادی کے قریب رہنے والے ایک شخص کی خدمات حاصل کی۔
اس شخص کے ذریعے امریکی فوج ابو بکر البغدادی تک پہنچیں۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ مخبر ابو بکر البغدادی کی نقل و حرکت میں مدد کرتا تھا اور البغدادی کے لیے بااعتماد شخص تھا۔
ادھر شام میں موجود کرد ملیشیا کے رہنما جنرل مظلوم عابدی نے امریکی چینل این بی سی کو کہا ہے کہ ان کی تنظیم کے ایک مخبر نے امریکی فوج کو ابو بکر البغدادی کے کمپاؤنڈ تک پہنچانے میں مدد کی ہے۔
ابھی تک وائٹ ہاؤس اور پینٹاگون نے اس آپریشن میں کسی مخبر کی موجودگی کی تصدیق نہیں کی ہے۔
امریکہ نے ابو بکر البغدادی کے سر کی قیمت 25 ملین ڈالر لگائی تھی۔ توقع کی جارہی ہے کہ یا تو پوری رقم مخبر کو دی جائے گی یا اس میں سے کچھ حصہ۔
واٹس ایپ پر خبروں کے لیے ”اردو نیوز“ گروپ جوائن کریں

شیئر:

متعلقہ خبریں