Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’آزادی مارچ میں سردی بھگانے کے لیے چھلانگیں ‘

پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے بدلتے موسم نے جمعیت علمائے اسلام ف کے ’دھرنے‘ کے شرکا کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔
رات بھر برستی بارش میں مظاہرین میں خیمے تقسیم کیے جاتے رہے، جو خیمے پہلے سے نصب تھے ان پر بھی بھی بڑے سائز کی پلاسٹک شیٹس بچھائی گئی ہیں تاکہ پانی خیموں میں داخل نہ ہو لیکن ان ساری کوششوں کے باوجود دھرنا انتظامیہ شرکا کو بارش کے اثرات سے محفوظ نہیں رکھ سکی۔
کشمیر ہائی وے کے اطراف کچی جگہ پر خیموں کے باہر بارش کے پانی کی وجہ سے کیچڑ بن چکا ہے جس کے باعث نقل و حرکت میں مشکلات کا سامنا ہے۔
خیموں کی کمی کے باعث درجنوں افراد ایک ہی خیمے کے نیچے کھڑے رہنے پر مجبور ہیں۔
دھرنے کے شرکا نے انتظامیہ کی طرف سے راستے روکنے کے لیے لگائے گئے کنٹینرز کو پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے انھیں رہائشی کمروں میں تبدیل کردیا ہے۔ مظاہرین کے لیے موجودہ صورت حال میں بارش سے بچنے کی سب سے موثر جگہ یہ کنٹینرز ہی ہیں۔

کوئی خیمے میں گھس کر چائے پی رہا تھا تو کوئی بارش سے بچنے کے لیے پلاسٹک شیٹ لیے کھڑا تھا، فوٹو: اردو نیوز

ان کنیٹنرز اور سامنے خیموں میں موجود کارکنوں نے برستی بارش میں جب کیمرہ دیکھا تو روایتی انداز میں ’گو نیازی گو‘ کے نعرے لگاتے ہوئے کہا کہ ’ہم جانے والے نہیں ہیں۔‘
دھرنے کے مرکزی کنٹینر کی چھت خالی نظر آئی تاہم اس کے سامنے انصار الاسلام کے رضا کار سردی بھگانے کے لیے چھلانگیں لگا رہے تھے۔ برستی بارش میں چھلانگ لگا لگا کر تھک جاتے تو تھوڑی دیرکے لیے رکتے لیکن جب دوبارہ سردی محسوس ہونے لگتی تو پھر سے شروع ہو جاتے۔
بارش تیز ہوئی تو انصار الاسلام کے ایک کارکن نے پشتو زبان میں سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’قبلہ رخ  ہو کر اذانیں دی جائیں‘ جس کے بعد تمام رضا کار اذانیں دینے لگے۔
پنڈال کا رخ کیا تو نسبتاً ویران نظر آیا۔ کوئی خیمے میں گھس کر چائے پی رہا تھا تو کوئی بارش سے بچنے کے لیے پلاسٹک شیٹ لیے کھڑا تھا۔
چارسدہ سے تعلق رکھنے والے طیب جان سے پوچھا کہ رات کیسے گزری؟ تو کہنے لگے کہ ’یہ تو ایک یادگار رات تھی، بارش مشکل نہیں بلکہ معمولی مسئلہ ہے۔ سیلاب آ جائے تب بھی مقابلہ کریں گے اور واپس نہیں جائیں گے۔‘

وزیراعظم نے سی ڈی اے کو ممکنہ ریلیف فراہم  کرنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں، فوٹو: اردو نیوز

دھرنا انتظامیہ جہاں سخت موسم سے نمٹنے کی تیاری کر رہی ہے وہیں وزیراعظم نے بھی سی ڈی اے کو ممکنہ ریلیف فراہم کرنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔
 
اس ساری صورت حال میں سوشل میڈیا پر مولانا فضل الرحمان کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ وہ خطاب کرنے کے بعد خود تو گھر چلے جاتے ہیں لیکن دھرنے کے شرکا بارش میں بھیگ کر بیمار پڑ رہے ہیں۔
تنگی سے تعلق رکھنے والے جمعیت کے ایک کارکن نثار محمد حقانی سے جب پوچھا کہ لوگ آپ کے قائد پر تنقید کر رہے ہیں آپ کو نہیں لگتا کہ انھیں یہاں آپ کے ساتھ ہونا چاہیے؟
تو انھوں نے جواب دیا کہ ’مولانا جہاں بھی ہوں اس سے فرق نہیں پڑتا۔ مولانا عطا الرحمان رات کو ہمارے درمیان موجود تھے لیکن کارکنان انہیں پکڑ کر کنٹینر میں چھوڑ آئے۔ ہم اپنے قائدین کی سکیورٹی کا خطرہ مول نہیں لے سکتے‘۔
دھرنے کے شرکا واپس جانے کے لیے تو تیار نہیں لیکن موسمی بیماریوں کا شکار ہو کر ہسپتال پہنچ رہے ہیں۔ پمز کے ترجمان ڈاکٹر وسیم خواجہ کے مطابق 200 سے زائد مریضوں کا علاج کیا جا چکا ہے جن میں سے زیادہ تر کھانسی، نزلہ، زکام اور بخار کا شکار تھے۔  
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: