Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

متنازع آرڈیننسز پر غیر معمولی پارلیمانی مفاہمت

گذشتہ چند دنوں سے دونوں اطراف کے پارلیمانی رہنماؤں کے درمیان ان آرڈیننسز پر بات چیت جاری تھی۔ فوٹو: پی آئی ڈی
حکومت نے اپوزیشن کے مطالبے پر گذشتہ ہفتے عجلت میں منظور کیے گئے گیارہ آرڈیننس واپس لے لیے ہیں جس کے بعد پارلیمانی اپوزیشن نے قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر قاسم خان سوری کے خلاف تحریک عدم اعتماد بھی واپس لے لی ہے۔
حکومت  نے سات نومبر کو گیارہ آرڈیننس منظور کیے تھے جس پر اپوزیشن نے شدید احتجاج کرتے ہوئے اگلے دن قاسم خان سوری کے خلاف تحریک عدام اعتماد جمع کروائی تھی۔
گذشتہ چند دنوں سے دونوں اطراف کے پارلیمانی رہنماؤں کے درمیان اس تنازع  پر بات چیت جاری تھی۔ حکومت جسے قومی اسمبلی میں معمولی اکثریت حاصل ہے، کی کوشش تھی کہ اپوزیشن تحریک عدم اعتماد واپس لے لے تاکہ اسے ووٹنگ کے مرحلے پر کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ 
اپوزیشن اس شرط پر آمادہ ہوئی کہ حکومت متنازع آرڈنینس واپس لے اور انہیں پارلیمان میں پیش کر ے۔  
جمعہ کو حکومت کی طرف سے وفاقی وزیر پارلیمانی امور اعظم سواتی نے اعلان کیا کہ نو آرڈیننس واپس لے کر پارلیمان میں پیش کیے جائیں گے۔
اپوزیشن کی طرف سے مسلم لیگ نواز کے رہنما خواجہ آصف نے اعلان کیا کہ ڈپٹی سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد واپس لی جا رہی ہے۔

اپوزیشن نے قاسم سوری کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرایا تھا۔ فوٹو: سرکاری ریڈیو

انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی کی متعلقہ کمیٹیاں اب ان آرڈیننسز کا جائزہ لیں گی اور پھر بل متفقہ طور پر منظور ہوں گے۔
واپس لیے گئے آرڈیننسز میں قوانین میں وراثت کا سرٹیفکیٹ بل 2019، خواتین کے وراثت میں حقوق کا بل 2019، لیگل ایڈ اینڈ جسٹس اتھارٹی ایکٹ 2019، سپیریئر کورٹس آرڈر بل 2019 شامل ہیں۔
بے نامی ٹرانزیکشن ترمیم بل، نیب ترمیمی بل 2019 بھی واپس لے لیے گئے ہیں۔ اب ان تمام بلوں کو مشاورت کے لیے قانون و انصاف کی قائمہ کمیٹی کو بھیجا جائے گا جہاں پر اپوزیشن کے نمائندے بھی اپنی تجاویز دیں گے۔
حکومت کا موقف رہا ہے کہ پارلیمنٹ میں قانون سازی میں وقت لگتا ہے اور سینٹ میں اکثریت رکھنے والی اپوزیشن قانون سازی کے عمل میں تعاون نہیں کرتی اس لیے فوری نوعیت کی قانون سازی صدارتی منظوری کے ذریعے کی جا رہی ہے۔
آئین کے آرٹیکل 89 کے مطابق صدر مملکت کو اختیار حاصل ہے کہ وہ عارضی قانون سازی کے لیے آرڈیننس منظور کر سکتے ہیں بشرطیکہ کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کا اجلاس نہ چل رہا ہو اور صورت حال فوری طور پر قانونی بل کے نفاذ کی متقاضی ہو۔
اس صورت میں قانون کی زیادہ سے زیادہ معیاد آٹھ ماہ ہو سکتی ہے۔

شیئر: