Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے؟

اگر عورت ملازمت یا کاروبار کرتی ہو تو ایسی صورت میں کیا گوشوارہ بنے گا (فوٹو: اے ایف پی)
ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے، اس کا مجھے بالکل بھی اندازہ نہیں اور اس لاعلمی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ میں عورت نہیں ہوں۔
آپ مجھ سے پوچھ سکتے ہیں کہ پھر مثالی مرد کی تعریف ہی بتا دو تو میرا جواب وہی ہوگا جو ابن صفی نے ایک مرتبہ اپنے قاری کو دیا تھا۔
اُن سے کسی نے پوچھا تھا کہ کیا وجہ ہے آپ کے ہر ناول میں عمران کو کوئی نہ کوئی لڑکی مل جاتی ہے اور پھر وہ پورے ناول میں ساتھ رہتی ہے، کبھی کوئی مرد کیوں نہیں ملتا؟
ابن صفی نے جواب میں لکھا ’جہاں لڑکی ہو وہاں مرد کی کیا ضرورت! سو ہم بھی مرد کو اُس کے حال پر چھوڑتے ہیں اور مثالی عورت کی بات کرتے ہیں۔‘
اس کی ضرورت یوں پیش آئی کہ گذشتہ دنوں ہوم اکنامکس کے نصاب کی کسی کتاب کا ورق سوشل میڈیا پر دیکھا، پیشانی پر لکھا تھا ’خاتون خانہ کے لیے وقت کے گوشوارے کا مثالی خاکہ۔‘
اس مثالی خاکے کی رُو سے خاتون خانہ صبح پانچ بجے نماز کے وقت اٹھیں گی، ساڑھے پانچ سے سات ناشتہ، سکول، آفس جانے کی تیاری، سات سے آٹھ کچن کی صفائی، آٹھ سے دس گھر کی صفائی، پڑھائی، دھلائی، دس سے بارہ کھانا پکانا، بارہ سے ایک نماز ظہر، ایک سے ڈیڑھ ذاتی صفائی، ڈیڑھ سے اڑھائی دوپہر کا کھانا، برتن، کچن کی صفائی، اڑھائی سے تین نماز عصر، تین سے چار آرام (شکر ہے)، چار سے ساڑھے چار چائے، ساڑھے چار سے پانچ کپڑے استری، پانچ سے ساڑھے سات بچوں کی پڑھائی (اور اگر بچے نالائق ہوں تو اُن کی دھلائی)، ساڑھے سات سے ساڑھے نو ٹی وی (ساس بہو کے ڈرامے)، ساڑھے نو سے دس نماز عشا، دس سے گیارہ صبح ناشتہ کی تیاری اور کچن کی صفائی۔
یہ مثالی گوشوارہ دیکھ کر مجھے اپنے سکول کا زمانہ یاد آ گیا، میٹرک کے امتحانات سے پہلے میں نے بھی ایسا ہی جنگی ٹائم ٹیبل بنایا تھا جس میں صبح پانچ سے رات گیارہ بجے تک تقریباً نان سٹاپ پڑھائی تھی۔

مثالی خاکے کی رُو سے خاتون خانہ صبح پانچ بجے نماز کے وقت اٹھیں گی (فائل فوٹو: اے ایف پی

شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو جب میں نے اُس ٹائم ٹیبل پرعمل کیا ہو۔ ظاہر ہے میں نے ’خاتون خانہ‘ تو نہیں بننا تھا کہ مثالی گوشوارے پر عمل کرتا۔
ویسے یہ ہوم اکنامکس والا گوشوارہ کافی دلچسپ ہے بشرطیکہ اس پر عمل نہ کرنا پڑے، مثلاً اس کی رُو سے باورچی خانے کی دن میں تین مرتبہ صفائی کرنی ہے، کہیں باہر آنا جانا نہیں، کسی سے ملنا نہیں، تھک ہار کر رات گیارہ بجے سونا ہے اور صبح پانچ بجے چوکس ہو کر اٹھنا ہے۔ (شکر ہے کسی اہل نظر نے رات گیارہ سے صبح پانچ بجے تک کا گوشوارہ نہیں بنا دیا)۔
چونکہ یہ گوشوارہ ہاؤس وائف کے لیے بنایا گیا ہے سو ہم یہ اعتراض نہیں کر سکتے کہ اگر عورت ملازمت یا کاروبار کرتی ہو تو ایسی صورت میں کیا گوشوارہ بنے گا!
ویسے اس سے تو کہیں بہتر انگریز کے زمانے کا نصاب تھا، ملاحظہ ہو ’زنانہ اردو کورس، حصہ چہارم چوتھی جماعت کے لیے، آلٹر نیٹ ٹیکسٹ بک، منظور شدہ، سر رشتہ ہائے تعلیم (1946)۔‘
کم از کم اس کتاب میں بچیوں کے لیے نظمیں، مضامین اور تاریخ کے کچھ باب تو ہیں۔
سچی بات تو یہ ہے کہ عورتوں کے لیے اس قسم کا نصاب بنانے والوں کا کوئی قصور نہیں، آج سے سو دو سو سال پہلے تک پوری دنیا میں عورتوں کو ذاتی استعمال کی چیز سمجھا جاتا تھا، کسی معاملے میں اُن کی رائے کی کوئی اہمیت تھی اور نہ حیثیت۔

گویا کہ عورتوں کے حقوق کیا ہوں گے یہ ہم مرد طے کریں گے (فوٹو: ان سپلیش)

انگلستان میں شوہر کو قانوناً اختیار حاصل تھا کہ وہ بیوی کو مار سکے، عورت کے پیسوں پر بھی اُس کا حق ہوتا تھا اور اگر وہ جہیز میں کوئی جائیداد لاتی تو وہ بھی خاوند کے تصرف میں ہی رہتی۔
یہ تو یورپ میں صنعتی انقلاب کے بعد صورتحال ایسی تیزی سے تبدیل ہوئی کہ کسی کو سمجھ ہی نہیں آئی کہ کب عورتیں مردوں کے ہم پلہ ہوئیں اور کب برابر کے حقوق مانگنے لگیں۔
انسانی تاریخ میں اس سرعت کے ساتھ اتنی بڑی تبدیلی کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے جیسے معاشروں کو اب تک سمجھ ہی نہیں آ ئی کہ عورتیں جب اپنے حقوق کے لیے نعرے لگاتی ہیں تو وہ بے حیائی کا مطالبہ نہیں کر رہی ہوتیں بلکہ صرف یہ بتا رہی ہوتی ہیں کہ وہ بھی مردوں کی طرح انسان ہیں اور اُن کے بھی مردوں جیسے حقوق ہیں۔
لطیفہ تو یہ ہے کہ ہم میں سے جو مرد خود کو فیمنسٹ کہتے ہیں اُن کا جملہ یوں شروع ہوتا ہے کہ ’میں عورتوں کو حقوق دینے کے لیے تیار ہوں مگر۔۔۔‘
گویا کہ عورتوں کے حقوق کیا ہوں گے یہ ہم مرد طے کریں گے اور وہ بھی ایسے جیسے خیرات دی جاتی ہے اور آخر میں ہمارا پسندیدہ جملہ کہ اسلام نے تو چودہ سو سال پہلے ہی عورتوں کو حقوق دے دیے تھے۔
جی ہاں، اسلام نے تو دے دیے تھے، اب پاکستانی مرد کا انتظار ہے وہ یہ حقوق کب دیتا ہے۔
  • اردو نیوز میں شائع ہونے والے کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: