Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آرامکو شیئرز کی فروخت پر اعتراض؟

یہ بات ناقابل یقین تھی کہ ریاست کی آئل کمپنی اپنے شیئرز فروخت کر سکتی ہے (فوٹو: ٹوئٹر)
یہ 2016 کے اوائل کی بات ہے جب نیا خیال منظرعام پر لایا گیا۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے دی اکنامسٹ میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ آرامکو کے کچھ شیئرز مارکیٹ میں لانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ وہ سعودی وژن 2030 کے حوالے سے نئی پالیسوں پر روشنی ڈال رہے تھے۔
آرامکو کی جانب سے اپنے شیئرز مارکیٹ ریٹ سے لانے کا مطلب یہ تھا کہ چینی کمپنی ’علی بابا‘ نے جو دنیا بھر میں اپنے شیئرز فروخت کرنے کی بات کہی تھی اس سے تین گنا زیادہ شئیرز آرامکو کی جانب سے پیش کیے جانے تھے۔
حتی کہ مشرق وسطیٰ میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی اس بات کو آسانی سے قبول نہیں کیا گیا۔ یہ بات ناقابل یقین سمجھی جا رہی تھی کہ ریاست کی آئل کمپنی اپنے شیئرز کیوں کر فروخت کر سکتی ہے؟

شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا تھا کہ آرامکو کےکچھ  شیئرز مارکیٹ میں لائے جائیں گے (فوٹو: ٹوئٹر)

عام طورپر آرامکو کے شیئرز فروخت کرنے کے حوالے سے مختلف خیالات سامنے آرہے تھے۔ خطے میں نجی کمپنیوں کو قومیانے کی طویل تاریخ کے اپنے اثرات تھے جو مختلف شکلوں میں سامنے آرہے تھے۔
خود سعودی حکومت آرامکو کے جملہ شیئرز کی مالک 1981 میں جا کر بنی تھی۔ 
سعودی حکومت نے امریکی کمپنیوں پر اپنے شیئرز حکومت کے ہاتھوں فروخت کرنے کی پابندی عائد کرکے یہ ہدف حاصل کیا تھا۔
لوگوں کا عام خیال یہی تھا کہ صرف حکومت ہی سمندر، آسمان اور تیل کی مالک بن سکتی ہے۔
بعض لوگوں نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ آرامکو کے شیئرز فروخت کرنے کا سودا غیر ملکی استعمار کو مملکت پر قبضے کی راہ دینے جیسا ہے۔ اس حوالے سے نہر سویز قومیانے کے واقعے کی یادیں تازہ کی گئیں۔
ماضی میں انٹرنیشنل آئل کمپنیوں کے ساتھ خطے کی حکومتوں کی کشمکش کے واقعات دہرائے گئے۔
مغربی دنیا کا حال مشرق وسطیٰ سے مختلف رہا۔ وہاں مختلف اسباب کے تحت آرامکو کے شیئرز کے حوالے سے کوئی جوش نظر نہیں آیا۔ ذہن یہ تھا کہ سرکاری آئل کمپنی میں سرمایہ کاری اقتصادی اعتبار سے نفع بخش منصوبہ نہیں۔

 زندگی کے ہر شعبے میں تبدیلیاں آرہی ہیں (فوٹو: ٹوئٹر)

کئی مبصرین نے اس خیال کا بھی اظہار کر دیا کہ سعودی ولی عہد نے جو کچھ کہا ہے وہ غالباً ابلاغی پھلجڑی سے زیادہ کچھ نہیں کیونکہ تیسری دنیا کی حکومتیں روایتی انداز سے آزاد ہو کر سوچنے سے قاصر ہیں۔
یہ تو صرف مغرب ہے جو غیر روایتی انداز سے سوچتا اور اقدامات کرتا ہے۔ صرف مغرب میں تیل کمپنیاں نجی شعبے کا حصہ ہیں۔
آگے چل کر جب دنیا کی سب سے بڑی کمپنی کے شیئرز فروخت کرنے کے انتظامات شروع کیے گئے تو میڈیا میں اس حوالے سے شکوک و شبہات کا طوفان کھڑا ہوگیا۔ مغربی دنیا کے بعض حلقوں نے معلومات کی کمی، بیورو کریسی ، راز داری، مالیاتی فیصلوں پر تسلط اور سیاسی مداخلت کی بابت معقول اعتراضات بھی پیش کیے۔
گذشتہ دو برسوں کے دوران سعودی حکومت نے شفافیت کو یقینی بنانے اور موثر انداز میں شیئرز کے سودے کو پیش کرنے کے لیے آرامکو کو تیار کر لیا۔
آرامکو نے جسے دنیا بھر میں سب سے زیادہ راز داری برتنے والی کمپنی کہا جاتا تھا اس نے بین الاقوامی اداروں کو شیئرز کے معاملات پر نظر ثانی کا کام تفویض کیا۔ آرامکو نے تیل کے یقینی محفوظ ذخائر کے تجزیے کا کام کچھ کمپنیوں کے حوالے کیا۔

ستمبر میں ایران نے آرامکو تیل تنصیبات پر حملے کرکے نیا مسئلہ کھڑا کر دیا (فوٹو: ٹوئٹر)

عالمی کمپنیوں نے اپنی رپورٹس میں اعتراف کیا کہ آرامکو کی انتظامیہ اعلیٰ ذہانت کی مالک ہے اور یہ کمپنی سائنسی انداز میں ٹھیک اسی طرح چلائی جا رہی ہے جیسا کہ دیگر معروف انٹرنیشنل کمپنیاں چلائی جا رہی ہیں۔
رپورٹس میں یہ بھی بتایا گیا کہ آرامکو کے یہاں ایک بیرل تیل کی پیداواری لاگت صرف 2.8 ڈالر ہے یہ مارکیٹ میں سب سے کم لاگت پر کام کرنے والی کمپنی ہے۔
جہاں تک جغرافیائی، سیاسی خطرات کا معاملہ ہے تو اس حوالے سے ستمبر 2019 میں ایران نے آرامکو تیل تنصیبات پر حملے کر کے نیا مسئلہ کھڑا کر دیا۔ یہ حملے 1991 کے دوران کویت کے آئل فیلڈز میں عراقی افواج کی آتش زنی کے بعد بدترین تھے۔
آرامکو نے اس حوالے سے بھی اپنی پوزیشن منوا لی۔ ایک ہفتے کے اندر حملوں سے ہونے والے نقصانات کا تدارک کرلیا اور چھ ہفتوں کے اندر تمام متاثرہ تنصیبات کی اصلاح و مرمت کر لی اور پوری دنیا کو ثابت کر دیا کہ وہ خطرناک چیلنجوں سے نمٹنے کی اہل ہے۔
یہاں تک شکوک اور تحفظات بڑی حد تک معقول تھے۔ شیئرز کے اجرا سے چند ہفتے پہلے زبردست مہم چلائی گئی۔
آرامکو شیئرز کے اندراج کو انسانی حقوق، ماحولیات اور موسمی تبدیلی جیسے مسائل سے جوڑنے کی کوشش کی گئی۔ ایسے سوالات اٹھائے گئے جو کبھی بھی کسی اور کمپنی مثلاً ایکسن، موبائل، شیل وغیرہ کے شئیرز کی خرید کے وقت نہیں اٹھائے گئے۔

آرامکو کے ایک بیرل تیل کی پیداواری لاگت صرف 2.8 ڈالر ہے (فوٹو: ٹوئٹر)

جب آرامکو نے اندرون ملک شیئرز فروخت کرنے کا عندیہ دیا تو ابتدا میں کہا گیا کہ جو وقت شیئرز فروخت کرنے کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔ اس میں تاخیر کی گئی ہے۔ جب باقاعدہ اعلان ہوا تو کہا گیا کہ سب کچھ جلد بازی میں کیا جا رہا ہے۔
وجہ یہ ہے کہ حکومت کو بجٹ درکار ہے۔ اسی وجہ سے آرامکو کے شیئرز جلد بازی میں فروخت کے لیے پیش کیے جا رہے ہیں۔ شیئرز، قومی خدمات کے فنڈ کے لیے پیش نہیں کیے جا رہے ہیں۔
جہاں تک شیئرز کے نرخوں کا تعلق ہے تو خریدار اور فروخت کنندہ کے درمیان بحث فطری امر ہے۔ حکومت کی کوشش ہوگی کہ اپنے حوالے سے بہترین نرخ مقرر کرے۔ خریدار اپنے فائدے کی بابت زیادہ سے زیادہ سوچیں گے۔
مقررہ تعداد میں آرامکو کے شیئرز فروخت ہوں یا کوٹے سے کم حصص خریدے جائیں، اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ یہ الگ بات ہے کہ پٹرول اس وقت تک دنیا بھر کی ضرورت بنا رہے گا جب تک کہ اس کا متبادل سامنے نہ آجائے۔ یا یہ کہ تیل کے زیر زمین ذخائر ختم نہ ہو جائیں۔

غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے  سعودی مارکیٹ کھول دی گئی ہے (فوٹو: ٹوئٹر)

سعودی عرب آرامکو کے شیئرز فروخت کرنے پر مجبور نہیں۔ اس کا خیال صرف اس لیے آیا تاکہ ریاستی وسائل کو مختلف انداز سے استعمال کیا جائے۔ سعودی عرب آنے والے اور مستقبل میں اس کی سیاحت کے لیے پہنچنے والے یہ بات نوٹ کر چکے ہیں اور کریں گے کہ یہ ملک بہت زیادہ بدل رہا ہے۔
زندگی کے ہر شعبے میں تبدیلیاں آرہی ہیں۔
ہم نے محدود وقت میں بڑا فاصلہ طے کر لیا ہے۔ جب سے سعودی عرب نے تیل کی سب سے بڑی کمپنی کے شیئرز فروخت کرنے کی بات کہی تھی تب سے اب تک سعودی عرب سرکاری انتظامی اصلاحات کے باب میں 30 گنا آگے بڑھ چکا ہے۔
عالمی بینک کی رپورٹ یہی بتا رہی ہے۔ سعودی عرب نے سرکاری اور نجی شعبوں، خواتین اور پٹرول کے کردار سے متعلق بہت سارے نئے تصورات دیے ہیں۔
ملک کے دروازے سیاحوں کے لیے کھول دیے گئے ہیں جو اب تک بند تھے۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے بھی سعودی مارکیٹ کھول دی گئی ہے اور بہت سارے لوگوں کے لیے بھی سعودی عرب کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔
واٹس ایپ پر سعودی عرب کی خبروں کے لیے ”اردو نیوز“ گروپ جوائن کریں

شیئر: