Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا واقعی پنجاب پر شہباز شریف قابض ہیں؟

’شہباز شریف کے منظور نظر بیوروکریٹ اس وقت دوبارہ مین سٹریم ہو گئے ہیں‘ فوٹو:اے ایف پی
پچھلے کچھ دنوں سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں ہوئی انتظامی اکھاڑ پچھاڑ اور بڑے پیمانے پر بیوروکریسی میں ہوئے تقرریوں اور تبادلوں کے بعد ایک بات بڑی شدت سے کی جارہی ہے کہ شہباز شریف کی ٹیم پنجاب میں واپس آگئی ہے۔
کیا واقعی میں ایسا ہے؟ یہی بات تب بھی سننے کو ملی جب انیس اپریل کو تحریک انصاف کی پنجاب کی حکومت نے یکلخت سولہ سیکرٹریوں کے تقرری و تبادلے کر دیے۔ جن میں خزانہ، آبپاشی، زراعت، خوراک اور محکمہ داخلہ جیسے بنیادی محکمے شامل تھے۔
اس وقت بھی یہی باتیں زور و شور سے سننے کو ملیں کہ شہباز شریف کی ٹیم کو واپس لایا گیا ہے۔ تو اس کے بعد یہی سوال ذہن میں اٹھتے ہیں کہ پنجاب حکومت اپنی وہ پرفارمنس نہیں دکھا پا رہی اور رفتہ رفتہ ان افسران کو دوبارہ محکموں کے چارج دیے جا رہے ہیں جو شہباز شریف کے پنجاب میں دس سالہ حکومت میں کام کر رہے تھے۔ 
سابق چیف سیکرٹری پنجاب کامران رسول کہتے ہیں کہ ’اس کو اور طرح سے دیکھنا پڑے گا ایک بات تو واضع ہے کہ اکھاڑ پچھاڑ اسی وقت کی جاتی ہے جب مخصوص حدف میں تبدیلی ہوتی ہے۔ لیکن آپ بھلے ٹیم جیسی بھی لائیں اس کی پرفارمنس اس کے ٹیم لیڈر کی مرہون منت ہوتی ہے۔ آپ ٹیم لیڈر کو بدل دیں ٹیم بھلے وہی رہے تو پرفارمنس میں تبدیلی ضرور آئے گی کیونکہ سپرٹ بہت ضروری ہے۔‘
اس وقت کی پنجاب کی بیوروکریسی میں کی گئی اکھاڑ پچھاڑ میں سب سے زیادہ گفتگو موجودہ چیف سیکرٹری پنجاب اعظم سلمان پر بھی ہو رہی ہے۔ اعظم سلمان شہباز شریف کے دور حکومت میں ہوم سیکرٹری پنجاب تھے۔ اور سانحہ ماڈل ٹاون میں پاکستان عوامی تحریک نے ان کو ملزم نامزد کیا تھا۔ یہ سابق وزیر داخلہ پنجاب شجاع خانزادہ مرحوم کے ساتھ سیکرٹری ہوم ڈیپارٹمنٹ تعینات ہوئے تھے۔ معروف صحافی حسن نثار کا کہنا ہے  ’یہ بات تو اب ڈھکی چھپی نہیں کہ موجودہ حکومت کو سب سے بڑا مسئلہ پرفارمنس کا ہے اور بیوروکریسی کسی کی سگی نہیں ہوتی۔ یہ اکھاڑ پچھاڑ جو ہوئی ہے اس میں بھی وہی افسر لائے گئے ہیں جنہوں نے لابنگ کی ہے۔ اس کو یہ کہنا کہ شہباز شریف کی ٹیم ہے بنیادی اصول کی خلاف ورزی ہے۔ کیونکہ یہ افسر اس سے پہلے بھی تعینات تھے۔ چونکہ کئی افسران کی پروموشن ہوئی ہے اس لیے بھی یہ تبادلے ناگزیر ہو جاتے ہیں۔‘

وزیراعظم عمران خان نے تقرریوں اور تبادلوں کی منظوری دی تھی۔ فوٹو: سرکاری ریڈیو

پنجاب میں اس بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ سے پہلے وزیر اعظم عمران خان نے لاہور کا دورہ کیا اور لمبی میٹنگز میں پنجاب حکومت کی کارکردگی پر بریفنگ کے بعد چودہ افسران کو گریڈ بائیس میں ترقی کی منظوری دی۔
موجودہ تبادلوں میں ایک بڑی بات مومن علی آغا کو ایڈیشنل سیکرٹری ہوم لگانا بھی ہے کیونکہ مومن علی آغا شہباز شریف کے بہت قریب سمجھے جاتے تھے۔ اور ان کے دورحکوت میں وہ سیکرٹری انفارمیشن تھے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے پہلے ہی 22 جون کو انہیں سیکرٹری صحت تعینات کیا تھا۔
معروف صحافی سہیل وڑائچ کے مطابق ’میں اس کو ایسے دیکھتا ہوں کہ موجودہ حکومت نے اپنے رویے پر نظر ثانی کی ہے اور بیوروکریسی کو درپیش شکایات کا ازالہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ بیوروکریسی موجودہ حکومت کی پالیسیوں سے نالاں ہے اور ان میں بھی سر دست وہ پالیسیاں جس میں شہباز شریف کے قریبی سمجھے جانے والے بیوروکریٹس کو انتقام کا نشانہ بنانا۔ احد چیمہ ، وسیم اجمل ابھی بھی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ اصل میں تو شہباز شریف کی ٹیم اندر ہے۔‘ 
انہوں نے مزید کہا کہ ’جہاں تک میں سمجھتا ہوں تحریک انصاف نے کوئی عمرانی معاہدہ کیا ہے اور اس کا بنیادی مقصد بیوروکریسی کے تحفظات کو کسی حد تک کم کرنا ہے۔ لیکن بات وہی ہے پرفارمنس ٹیم نہیں لاتی لیڈر شپ کے ذریعے آتی ہے۔ لیکن یہ تاثر بھی جامع ہے کہ شہباز شریف کے منظور نظر بیوروکریٹ اس وقت دوبارہ مین سٹریم ہو گئے ہیں۔‘
تحریک انصاف کی حکومت کو جو ایک اور تنقید کا سامنا ہے وہ ہے بار بار آئی جی پنجاب کی تبدیلی، موجودہ تبادلوں میں چوتھی بار آئی پنجاب کوتبدیل کیا گیا ہے۔ سابق آئی جی پنجاب خواجہ خالد فاروق کے مطابق ’اس سے پہلے کسی بھی حکومت میں اتنی جلدی چار آئی جیز نہیں بدلے گئے کیونکہ آپ کمانڈ بدلیں گے تو پالیسیاں بھی بدل جاتی ہیں۔ میرے خیال میں حکومت کو یہ تاثر نہیں دینا چاہیے کہ کام نہیں ہو رہا اس لیے تبادلے ہو رہے ہیں۔ افسر ہوتے ہی اس لیے ہیں کہ وہ لائق افراد نہیں اگر آپ نتائج نہیں لے پا رہیں تو اس کی زیادہ ذمہ داری آپ پر عائد ہوتی ہے۔‘

شیئر: