یونانی مورخ ہیرو ڈوتھ نے کہا تھا کہ ’مصر نیل کا عطیہ ہے۔‘ مصر کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ یہاں براعظم افریقہ اور مشرق وسطیٰ کا طویل ترین ساحل پایا جاتا ہے۔
شمال کی جانب سے بحیرہ روم اور مشرق کی طرف سے بحر احمر مصر کو اپنی آغوش میں لیے ہوئے ہیں۔ شاید اسی لیے مصر کو سمندری سیاحت کے حوالے سے بے نظیر مانا جاتا ہے۔
سی این این کے مطابق بحر احمر کی تہہ میں غوطہ خوری تک بحری سیاحت کے لیے یہاں بہت کچھ ہے۔ بحری سیاحت کے حوالے سے مصر میں 10نمایاں ترین سرگرمیاں ہوتی ہیں۔
غوطہ خوری
ڈائیو میگزین کے مطابق مصر غوطہ خوروں کے لیے بہترین جگہوں میں سے چھٹے نمبر پرہے۔
میگزین کا کہنا ہے کہ صحرائے سینا سے لے کر سوڈان کی سرحدوں تک بحراحمر کی گہرائیوں میں غوطہ خوری کی مہم جوئی کا سفر تمام نہیں ہوتا۔
بڑی بڑی سمندری مخلوقات اور مونگوں کی دنیا غوطہ خوروں کو بحر احمر کی گہرائی میں پڑے ہوئے جہازوں کے ملبے کے انکشاف کی تحریک دیتی ہے۔
مثال کے طور پر برطانوی جہاز ’ss thistlegorm‘ غوطہ خوروں کی مہم جوئی کی بدولت ہی دریافت ہوا۔ یہ جہاز دوسری عالمی جنگ کے دوران جرمنی کی بمباری سے ڈوب گیا تھا۔
غوطہ خور اسکندریہ شہر کے قریب بحیرہ روم میں زیر آب قدیم شہروں کے ملبوں کا مشاہدہ بھی کرسکتے ہیں۔

ساحل
مصر کا ساحل دو ہزار 450 کلو میٹر طویل ہے۔ اس کی بدولت مصر سورج کی شعاعوں، گرم ریت اور سمندر کی صاف شفاف ہواﺅں سے لطف اٹھانے کا موقع مہیا کرتا ہے۔
شرم الشیخ او رالغردقہ 8ویں عشرے سے پوری دنیا میں مشہور ہوچکے ہیں۔ حالیہ ایام میں مرسی عالم دھب اور الجونہ کو مقامی اور بین الاقوامی ساحل نوردوں میں مقبولیت ملی ہے۔
یہاں کی ملائم اور سفید ریت، نیلا اور سبز رنگ کا گرم پانی،ساحلی سیاحت کے شائقین کو بے حد پسند آتا ہے۔ جزیرہ الجفتون پر واقع محمیہ ساحل اس حوالے سے سرفہرست ہے۔
یہ الغردقہ کے قریب واقع ہے۔ اسے مصر کے بہترین ساحل ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
