Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مفکرین کی قلابازیاں

میرے استعجاب کا سبب تو وہ قلابازیاں ہیں جو میڈیا کے مفکرین کو اس فیصلے کے بعد کھانا پڑ رہی ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
جنرل مشرف کے بارے میں خصوصی عدالت کا جو فیصلہ آیا ہے اور اس میں جو پیرا 66 درج ہے اس پر میں بات کرنے کی علمی اور قانونی بساط نہیں رکھتا۔
اس فیصلے میں آئین توڑنے والے کے بارے میں جو احکامات ہیں اس پر بھی بہت بحث ہو چکی۔ ایک آمر کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہیے اس پر میں موجودہ وزیر اعظم کی پرانی وڈیوز میں کہے الفاظ قلم بند کرنے کی جسارت بھی نہیں کر سکتا۔ ان تمام چیزوں پر سوشل میڈیا پر اتنی بحث ہو چکی ہے کہ اب کچھ بھی نیا قلم کرنے سے قاصر ہوں۔
آئین توڑنے کے مجرم کو کیا سزا ہونی چاہیئے؟ پھانسی کس طرح ہونی چاہیئے؟ غدار کیوں کہنا چاہیئے؟ زندہ یا انتقال کے بعد ڈی چوک میں لٹکانا کیوں ضروری ہے؟ نشان عبرت بنانا کیوں اہم ہے؟ اس بارے میں عدالت کے احکامات کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے۔
مجھے نہ عدالت کے حکم پر حیرت ہے نہ سزا کی شدت پر اور مجھے نہ ڈی چوک کے مقام پر کوئی اعتراض ہے نہ تین دن کی مدت پر میرا کوئی بیان ہے۔ نہ سہولت کاروں کی سزا میرا موضوع ہے اور نہ ہی میں اس پر بات کرنا چاہتا ہوں کہ تاریخ کا یہ کتنا اہم موڑ ہے۔
میرے استعجاب کا سبب تو وہ قلابازیاں ہیں جو میڈیا کے مفکرین کو اس فیصلے کے بعد کھانا پڑ رہی ہیں۔ مجھے تو ان تجزیہ کاروں کی مجبوریوں کا غم کھائے جا رہا ہے بچارے کن کن دشوار مرحلوں سے گذر رہے ہیں اور کون کون سے الم ان کو سہنا پڑ رہے ہیں۔
یہی مفکرین ابھی کچھ عرصے پہلے منہ سے کف اڑاتے، چیختے چنگھاڑتے، سکریںوں پر طیش کےعالم میں سیاست دانوں کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ ’لگا دو انہیں چوکوں میں پھانسی۔ جب تک ایسے لوگوں کو پھانسی نہیں ملے گی اس ملک میں جمہوریت نہیں آئے گی۔‘ اب وہی انقلابی مفکرین آںکھوں میں آنسو لیے، ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں سے،  نرم لہجے میں کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ’دیکھیں پھانسی دینا تو انسانی حقوق کی پامالی ہے۔ پھانسی تو دور جہالت کی یادگار ہے۔ اب یہ قبیح سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ اب یہ رسم ختم ہونی چاہیے۔‘

یہ وہی تجزیہ کار ہیں جو ہمیں بتایا کرتے تھے کہ اس سماج کا سب سے بڑا مجرم بھٹو تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

یہ وہی تجزیہ کار ہیں جو ہمیں بتایا کرتے تھے کہ اس سماج کا سب سے بڑا مجرم بھٹو تھا۔ اس نے ملک توڑا۔ آئین توڑا۔ اپنی ذات میں ڈکٹیٹر بنا رہا۔ غنڈہ گردی کو فروغ دیا۔ اس کو پھانسی کی سزا اس کے کرتوتوں کی وجہ سے ملی۔ وہ اسکا مستحق تھا۔
اب وہی بیچارے بتا رہے ہیں۔ ’مشرف نے آئین کب توڑا تھا؟ وہ تو بے چارہ شوکت عزیز کے کہے میں آکر ایمرجنسی لگا بیٹھا۔ بے چارے کو چوہدریوں نے بہکا دیا۔ جنرل پاکستان کے بارے میں کچھ اچھے فیصلے بھی کرنا چاہتے تھے، کچھ غلطیاں بھی ہوئی ہوں گی۔ لیکن کیا کریں انسان خطا کا پتلا ہے۔ اب ان جرائم کی سزا پھانسی تو نہیں ہوسکتی۔ آئین توڑنا کوئی ایسا بھی جرم نہیں، جنرل صاحب خود کئی دفعہ فرما چکے ہیں یہ تو بس ایک ردی کاغذ کا ٹکڑا ہے۔ کبھی بھی ڈسٹ بن میں پھینکا جا سکتا ہے۔ اب اس خطا پر سرزنش تو ہو سکتی ہے مگر پھانسی توبہ توبہ۔‘
یہ وہی تجزیہ کار ہیں جو بیگم کلثوم نواز کی بیماری پر ٹھٹھے لگا تے تھے۔ اس کو بہانہ قرار دیتے تھے۔ سزا سے بچنے کا حل بتاتے تھے۔ جب پی ٹی آئی کے ایک جید کارکن ہسپتال میں اس غرض سے پہنچ گَئے کہ ذرا چیک تو کریں کہ یہ شریف فیملی کہیں بیگم کلثوم نواز کی بیماری پر ڈھونگ تو نہیں رچا رہی۔ تو یہ لوگ اس کارکن کو جری جوان بتاتے تھے۔

یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے تھے کہ کیا نواز شریف کو اس وجہ سے سزا نہیں ہو سکتی کہ وہ وزیر اعظم تھے؟ فوٹو: اے ایف پی

یہ وہی تجزیہ کار ہیں جو نواز شریف کے دل کے آپریشن کو ہیئر ٹرانسپلاںٹ بتاتے تھے۔ کرپشن کے مقدمات سے بچنے کا بہانہ کہتے تھے۔ اب رونی سی صورت بنا کر بتاتے ہیں۔ ’آپ کو معلوم ہے جنرل مشرف کی طبیعت کتنی خراب ہے؟ عدالت کے نامعقول فیصلے ان کی طبیعت پر کتنے گراں گذرتے ہوں گے؟
یہی تجزیہ کار ہر شو میں نواز شریف کی میڈیکل رپورٹیں اس طرح لہراتے تھے کہ جیسے مجرم کا ’کھرا‘ مل گیا ہے۔ اب وہی مفکرین مریض کی پرائیوسی کا درس دے رہے ہوتے ہیں۔ میڈیکل رپورٹس کو ڈاکٹراور مریض کے باہمی اعتماد کی خفیہ دستاویز قرار دیتے ہیں۔ اب بقول ان کے میڈیکل رپورٹس دکھانے سے مریض کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ اس کو اختلاج قلب کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس کے تحت الشعور پر برا اثر پڑتا ہے۔
یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے تھے کہ کیا نواز شریف کو اس وجہ سے سزا نہیں ہو سکتی کہ وہ وزیر اعظم تھے؟ احتساب سب سے پہلے اوپر سے شروع ہونا چاہیے وہی اب کہتے ہیں ’دیکھیں جنرل مشرف اس ملک کے صدر تھے۔ ان کے ساتھ ایسا سلوک مناسب نہیں ہے، انہوں نے نو سال اس ملک کی خدمت کی ہے۔‘

عدالت کے اس ایک فیصلے اور اس میں درج پیرا 66 نے بیچارے مفکرین کے خیالات، افکار، دلائل اور سوچیں یکدم بدل کر رکھ دی ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

یہ وہی مفکرین میڈیا ہیں جو ہمیں ہر ٹاک شو میں انتہائی طیش میں برطانیہ کی جمہوریت کی مثالیں دیتے تھے۔ ان کے نظام انصاف کے قصے سناتے تھے۔ اب خصوصی عدالت کے فیصلے کے بعد جب برطانیہ کے ڈکٹیٹر اولیور کرامویل کی کہانی ذرا زیادہ زبان زد عام ہو گئی ہے تو تجزیہ کار برطانیہ کی جمہوریت کے نام پر سہم جاتے ہیں، چپ سادھ لیتے ہیں۔ اور ایسے لہجے میں گفتگو کرتے ہیں جیسے کہہ رہے ہوں کہ ’چھوڑیں برطانیہ کی مثالوں کو۔ یہ ہمارا ملک ہے ہم آپس میں ہی اپنے مسئلے طے کر لیں گے۔ ہمیں کیا لینا برطانیہ، امریکہ سے۔ ہماری روایت تو بزرگوں کے احترام کی ہیں۔
عدالت کے اس ایک فیصلے اور اس میں درج پیرا 66 نے بیچارے مفکرین کے خیالات، افکار، دلائل اور سوچیں یکدم بدل کر رکھ دی ہیں۔ یقین مانیے اب ان پرغصہ نہیں، ترس آتا ہے۔ ان کی قلابازیاں اتنی حیران کن ہیں کہ کل کو یہ اپنے موکل کے دفاع میں یہ بہت وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ دراصل آئین توڑنا تو حب الوطنی کی مثال ہے۔
اپنے لوگوں کو پکڑ پکڑ کر امریکہ کے حوالے کرنا تو بہادری کی دلیل ہے۔ بگٹی کو اڑا دینا کارنامہ ہے۔ لال مسجد آپریشن حوصلے کی بات ہے۔ وکیلوں کا کراچی میں گولیوں سے بھون دیا جانا توعظمت کی نشانی ہے اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو بالوں سے گھسیٹ کر گرفتار کرنا بڑی ہمت کی بات ہے۔
  • اردو نیوز میں شائع ہونے والے کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کری

شیئر: