Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈالر کی پرواز اور ’چھوٹی چھوٹی کامیابیاں‘

حفیظ پاشا کے مطابق نقصان کرنے والے سرکاری اداروں کے لیے حکومت نے رواں سال کچھ نہیں کیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت کو اقتدار سنبھالنے کے ابتدائی مہینوں میں ہی معیشت کے مشکل چیلنج کا سامنا ہوگیا تھا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی کشتی شدید معاشی مدوجزر میں ہچکولے کھاتی رہی۔
گذشتہ ایک سال کے دوران معیشت کے حوالے سے کئی اہم اقدامات کیے گئے لیکن ان کی کامیابی یا ناکامی کے متعلق ماہرین کی آرا منقسم ہی رہیں۔
مالی سال 2017-18 کے دوران پاکستان کی معیشت نے تقریباً 5.8  فیصد کی شرح نمو سے ترقی کی تھی۔
 مالی سال2018-19  میں یہ کم ہو کر 3.3 فیصد تک آگئی۔
مالی سال 2019-20 کی پہلی ششماہی کے دوران بھی معاشی سست رفتاری کا عمل جاری ہے اور ماہرین کے مطابق اس دوران معاشی شرح نمو ڈھائی فیصد سے بھی کم رہنے کا امکان ہے۔
جبکہ آئی ایم ایف اور وزارت خزانہ کے مطابق مالی سال2019-20 کے دوران معاشی شرح نمو2.4  فیصد رہنے کا امکان ہے۔
معاشی امور کے ماہر اور پاکستان کے سابق سیکریٹری خزانہ وقار مسعود کے مطابق2020  کے دوران بھی اکنامک گروتھ ریٹ میں اضافے کا امکان نہیں۔
سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا کا اندازہ ہے کہ رواں مالی سال کے دوران معاشی شرح نمو دو سے ڈھائی فیصد کے درمیان رہنے کا امکان ہے۔

رواں سال مہنگائی میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے اور پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس کے مطابق مہنگائی 13  فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

’اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں فی کس آمدنی بھی کم ہوگی کیونکہ ملک میں آبادی میں اضافے کی شرح 2.4  فیصد ہے۔ بے روزگاری اور غربت میں بھی اضافہ ہوگا۔‘

’معاشی کامیابی‘

ڈاکٹر وقار مسعود کے مطابق سال2019 کے دوران پاکستانی معیشت کے حوالے سے سب سے مثبت چیز معاشی ٹیم کی جانب سے سمت کا تعین، زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ، ایکسچینج ریٹ میں استحکام اور آئی ایم ایف کی جانب سے پہلے معاشی جائزے کا کامیابی سے مکمل ہونا ہے۔
سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ اے پاشا نے اب تک کی حکومتی کارکردگی میں سب سے مثبت بات جاری کھاتوں کے خسارے میں نمایاں کمی کو قراردیا ہے جس کی وجہ سے تجارتی خسارے میں 70فیصد سے زیادہ کمی ہوئی ہے۔ 
ان کے اس تجزیے کا محور سٹیٹ بینک کے اعداد و شمار ہیں جن کے مطابق اکتوبر میں کرنٹ اکائونٹ بیلنس 70 ملین ڈالر سرپلس رہا ہے۔ جسے موجودہ حکومت اپنی معاشی ٹیم کی بہت بڑی کامیابی قرار دے رہی ہے۔
تاہم نومبر کے مہینے میں جاری کھاتے کا توازن بگڑ کر 319 ملین ڈالر کے تجارتی خسارے میں تبدیل ہوگیا۔ اس کے باوجود معاشی ماہرین اسے حکومت کی بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔

ڈاکٹر وقار مسعود کے مطابق ملکی برآمدات میں سال رواں کے دوران کوئی خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ فوٹو: اے ایف پی

تجریہ نگار ڈاکٹر فرخ سلیم نے اردو نیوز کو بتایا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی یقیناً موجودہ حکومت کی معاشی ٹیم کی رواں سال کے دوران بڑی کامیابی ہے۔
ان کے مطابق جاری کھاتوں کےخسارے میں کمی کے باعث تجارتی خسارہ 19 ارب سے کم ہوکر 13 ارب تک آگیا جو کہ یقیناً ایک ’معاشی کامیابی‘ ہے۔
ڈاکٹر وقار مسعود کے مطابق ملکی برآمدات میں سال رواں کے دوران کوئی خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ بڑی صنعتوں کی پیداوار میں مسلسل کمی ہو رہی ہے اور رواں مالی سال کے پہلے چار مہینوں کے دوران صنعتی پیداوار میں چھ فیصد تک کمی ہوئی۔ گذشتہ مالی سال کے دوران یہ کمی تین فیصد تھی۔

بیرونی قرضوں کے بوجھ میں ایک ہزار 497 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

وقار مسعود کے مطابق رواں سال خریف کی فصل کو بھی نقصان پہنچا ہے اور محتاط اندازے کے مطابق زرعی پیداوار میں20 سے 30 فیصد کمی کا امکان ہے۔
ڈاکٹرحفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ رواں سال کپاس کی پیداوار20  فیصد کم رہنے کا امکان ہے جس کا براہ راست اثر ملکی برآمدات پر ہوگا کیونکہ پاکستان کی برآمدات کا زیادہ حصہ ٹیکسٹائل کی مصنوعات پر مشتمل ہے۔

مہنگائی اور بے روزگاری

رواں سال مہنگائی میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے اور پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس کے مطابق مہنگائی 13  فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ سال کے شروع میں مہنگائی فیصد تھی جو کہ سال کے احتتام پر 13 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ  16تک ہے جس کے وجہ سے عام آدمی بہت زیادہ متاثر ہوا ہے۔
ڈاکٹر حفیظ شیخ کہتے ہیں کہ کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں 16 فیصد سے زائد اضافے نے عام آدمی کی کمر توڑ دی ہے۔
ڈاکٹر فرخ سلیم نے  سمجھتے ہیں کہ رواں سال ’حقیقی معیشت ‘ کے حوالے سے سب سے منفی چیز مہنگائی اور بے روز گاری میں بے تحاشہ اضافہ ہے۔ جس نے بڑے معاشی اعشاریوں اور جی ڈی پی گروتھ جیسی اعدادوشمار کی جادوگر اصطلاحات کو گہنا کر رکھ دیا ہے۔

ڈاکٹر فرخ سلیم نے  سمجھتے ہیں کہ رواں سال ’حقیقی معیشت ‘ کے حوالے سے سب سے منفی چیز مہنگائی اور بے روز گاری میں بے تحاشہ اضافہ ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

ان کے مطابق رواں سال کے دوران بے روزگاری نو سال کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئی ہے۔
’’محتاط اندازے کے مطابق اس سال 12 لاکھ کے قریب پاکستانی بے روزگار ہوئے اور 80  لاکھ کے قریب خط عربت سے نیچے چلے گئے۔‘‘
ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق رواں سال کے دوران 10  لاکھ سے زائد افراد بے روزگار ہوئے جبکہ مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے 40  لاکھ سے زائد افراد خط عربت سے نیچے چلے گئے۔
ڈاکٹر وقار مسعود مستقبل قریب میں بھی نوکریوں کی فراہمی اور غربت کے خاتمے کو خارج از امکان قرار دیتے ہیں۔
’ملک میں صنعتی پیداوار میں مسلسل کمی ہورہی ہے اور آٹوموبائل انڈسٹری میں تو36  فیصد تک کمی ہوئی ہے۔ ایسے حالات میں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونے کے امکانات کم ہیں۔‘

سٹیٹ بینک کے مطابق 2019 کے دوران مجموعی قرضوں میں آٹھ ہزار 251 ارب روپے اضافہ ہوا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

بیرونی سرمایہ کاری

پاکستان جیسی ترقی پذیر معیشت کے لیے بیرونی سرمایہ کاری کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ سٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے پانچ مہینوں کے دوران براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں78  فیصد اضافہ ہوا۔ تاہم ڈاکٹر وقارمسعود اس اضافے کا سبب ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیز کی جانب سے لائسنس کی تجدید کروانے کے لیے ادا کی گئی فیس کو سمجھتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اصل سرمایہ کاری براہ راست سرمایہ کاری ہے اور پورٹ فولیو انوسٹمنٹ کوئی سرمایہ کاری نہیں۔

 نقصان کرنے والے حکومتی ادارے اور گردشی قرضہ

موجودہ حکومت سرکاری صنعتی اور کمرشل اداروں کو منافع بخش بنانے کے وعدے کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی لیکن ماہرین کے مطابق اس سال اس حوالے سے کوئی بڑا اور اہم قدم نہیں اٹھایا گیا۔
معاشی تجزیہ نگار فرخ سلیم سرکاری اعداد و شمار کو بنیاد بنا کر کہتے ہیں کہ اگست 2018 میں ریاست کے زیر ملکیت اداروں کا مجموعی خسارہ 1300  ارب روپے تھا جو کہ اگست2019  میں بڑھ کر2100  ارب روپے ہو گیا ہے۔ 
’یعنی موجودہ حکومت نے ایک سال کے دوران آٹھ سو ارب روپے کا نقصان کیا ہے۔‘
ان کے مطابق توانائی کے شعبے کا گردشی قرضہ جو اگست2018  میں 1100 ارب روپے تھا اب بڑھ کر 1700 ارب روپے ہو گیا ہے۔
تاہم ڈاکٹر حفیظ پاشا سمجھتے ہیں کہ حالیہ دنوں میں گردشی قرضوں میں کچھ بہتری آئی ہے، لیکن اس کی وجہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔
ان کے مطابق نقصان کرنے والے سرکاری اداروں کے لیے حکومت نے رواں سال کچھ نہیں کیا ہے۔
ڈاکٹر وقار مسعود کوبھی نقصان کرنے والے اداروں کی نجکاری کے لیے حکومتی کارکردگی تسلی بخش نہیں لگتی۔

پاکستان کی ریٹنگ میں بہتری

گذشتہ سال دسمبر میں پاکستان کے بگڑتے معاشی اعشاریوں کے سبب عالمی ریٹنگ ایجنسی نے پاکستان کی ریٹنگ منفی کر دی۔ تاہم رواں مہینے موڈیز انویسٹرز نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ بہتر کرتے ہوئے آؤٹ لُک کو منفی سے مستحکم کر دیا۔ موڈیز نے پاکستان کی ریٹنگ بی تھری پر برقرار رکھی ہے تاہم پہلے یہ آؤٹ لُک منفی تھا۔

 ملکی اور بیرونی قرضوں میں اضافہ

سال 2019 کے دوران بھی حکومت کا انحصارملکی و غیر ملکی قرضوں پر برقرار رہا ہے۔ سٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق 2019 کے دوران مجموعی قرضوں میں آٹھ ہزار 251 ارب روپے اضافہ ہوا ہے۔
مقامی قرضوں میں پانچ ہزار 114 ارب روپے جبکہ بیرونی قرضوں کے بوجھ میں ایک ہزار 497 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔
سٹیٹ بینک کے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق ملک پر قرضوں کا مجموعی بوجھ 41 ہزار 489 ارب روپے ہے جس میں ملکی قرضے 22 ہزار 650 ارب اورغیر ملکی قرضے 10 ہزار 598 ارب روپے ہیں، 31 دسمبر 2018 تک ملک پر قرضوں کا مجموعی بوجھ 33 ہزار 239 ارب روپے تھا جس میں ملکی قرضے 17 ہزار 536 ارب اور غیر ملکی قرضے 9 ہزار 101 روپے تھے۔

شیئر: